وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہمارے پاس آج تیل کی مصنوعات، گیس اور گندم خریدنے تک کے پیشے نہیں ہیں۔ اگر نے ملک وقوم کو موجودہ صورتحال سے نکالنا ہے تو میثاق معیشت لاگو کرنا ہوگا۔
اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت کی مدت کو ایک سال 3 ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے۔ ہم طویل المدت کام نہیں کر سکتے لیکن ملک کو درست ڈگر پر ضرور ڈال جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بطور قوم اگر فیصلہ نہ کیا کہ ہم نے دن رات کام اور پلاننگ کرکے اس پر عمل کرنا ہے تو جس طرح 75 سال ضائع کر دئیے اس طرح آنے والے 500 سال بھی ضائع ہو جائیں گے۔ ہمارا مقصد اپنی ایکسپورٹس، زراعت کو ترقی دے کر ملک کو بحرانوں سے نکالنا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ لیکن ملکی صورتحال یہ ہے کہ ہمیں 3 ملین ٹن گندم ایکسپورٹ کرنا پڑ رہی ہے۔ میں پریشان ہوں کہ اس کی خریداری کیلئے ایک بلین ڈالر کی رقم کہاں سے آئے گی؟ آج تو ہمارے پاس تیل اور گیس تک کے پیسے نہیں ہیں
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھارت نے ہمارے منصوبوں کی تقلید کی۔ ہر قدم پر حکومت کو تاجروں کی تجاویز اور آرا کی ضرورت ہوگی۔ حکومت دی گئی اچھی تجاویز پر عمل کرے گی۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ملکی ترقی کے لئے دیہی علاقوں کو ترقی دینا ہوگی۔ پاکستان ساڑھے 4 ارب ڈالر کا پام آئل برآمد کر رہا ہے۔ زرعی شعبہ ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے زرعی پیداوار بڑھائی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی اور معاشی استحکام آپس میں جڑا ہے۔ میثاق معیشت وقت کی اہم ضرورت ہے، ریاست کو صوبوں کے ساتھ مل کر ایک جامع منصوبہ بنانا ہوگا، ملکی ترقی کے لیے سب کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔ پالیسی کے تسلسل کے لیے میثاق معیشت ضروری ہے، سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا۔
وزیراعظم نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو زیادہ حصہ جاتا ہے، فیڈریشن کو صوبوں کیساتھ ملکر اقدامات کرنا ہوں گے، موجودہ حکومت میں لانگ ٹرم کام نہیں ہوسکتے، شارٹ ٹرم اور میڈیم ٹرم منصوبوں پر کام کریں گے۔
شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ہميں مشوروں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے، میثاق معیشت پر تمام اسٹیک ہولڈرز بیٹھ کر فیصلہ کریں، یہ وقت کی اہم ضرورت ہے، میثاق معیشت کے تحت ایسے اہداف طے کئے جائیں جنہیں تبدیل نہ کیا جاسکے، آئیں اس پر دستخط کریں اور قیامت تک کیلئے لاگو کردیں۔
انہوں نے کہا کہ پانچ سالہ منصوبوں کے اہداف کیلئے پروفیشنلز ٹیمیں کام کرتی تھیں۔ پاکستان بھارت سے ٹیکسٹائل میں آگے تھا۔ پاکستان کی روپے کی قدر بھارت اور بنگلا دیش سے بہتر تھی۔ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا، یہ دونوں چیزیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔