نواز شریف اور بلاول بھٹو کی جیل میں ہونے والی ملاقات دونوں جانب دلوں سے کدورتوں کے خاتمے کی کوشش ہے؟ یا دونوں جماعتیں مل کر اپنے سیاسی مستقبل کی راہ کا تعین کرنا چاہتی ہیں؟
اس ملاقات سے آئندہ سیاست کا نقشہ کھینچنے کی ایک کوشش کی جا رہی ہے۔ مستقبل کے بارے میں یہ امر بعید از امکان نہیں ہے کہ دونوں جماعتیں اپنی سیاسی بقا کے لئے بالآخر اتحاد بنائیں گی۔تحریک انصاف کے اقتدار کی ابتدا میں پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ دونوں جماعتیں پر امید تھیں کہ بہت جلد نا تجربہ کار حکومت کارکردگی میں ناکامی کے بعد اسی نوعیت کے سیاسی بحرانوں کا شکار ہو جائے گی جو ان دونوں جماعتوں کو درپیش رہے۔
اور یہ بھی امید تھی کہ عدالتیں اس حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیں گی اور حکومت مشکلات سے دو چار رہے گی۔ ایسا یقیناً ہوتا اگر ثاقب نثار کا دور ہی چل رہا ہوتا۔ مگر اپوزیشن کی بد قسمتی یا پی ٹی آئی کی خوش قسمتی کہ نئے چیف جسٹس کے آتے ہی عدالتوں سے سیاست کا اکھاڑہ اکھاڑ دیا گیا۔
https://www.youtube.com/watch?v=8Z4WCNTTlLs
دیگر ریاستی اداروں کی جانب سے بھی تحریک انصاف کی حکومت کو بظاہر کوئی مشکلات کا سامنا نہیں۔ تحریک انصاف صرف اپنے پیدا کردہ بحرانوں کے علاوہ کسی مشکل میں دکھائی نہیں دیتی۔ نہ ہی میڈیا پر علیم خان کی گرفتاری اور علیمہ خان کے اثاثوں کا معاملہ بحران جیسی کیفیت پیدا کر پایا اور نہ ہی معاشی بحرانوں میں واضح اضافہ حکومت کے لئے پریشانی کا سبب نظر آتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے پاؤں اقتدار میں جمے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور حال میں جس کامیابی اور دانشمندی سے بھارت کی چالوں کا جواب دیا گیا وہ تو سونے پر سہاگہ ہو گیا۔
یہ صورتحال دیکھتے ہوئے پاکستان کی دو بڑی جماعتوں کو اب اس فیصلے پر پہنچنا کہ کیسے متحد ہو کر حکومت کی ناکامیوں اور بری کارکردگی پر صحیح معنوں میں حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے ایک فطری امر ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے ممکنہ اتحاد کا ایجنڈا کیا ہو گا؟ مگر اس سے پہلے اس ممکنہ اتحاد کی جہتیں سامنے رکھنا ضروری ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز جب بھی مستقبل کے لئے کہیں اکٹھی ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، ان کے راستے میں خود اپنا ماضی آئینہ لے کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور اس آئینے میں اتنی سیاہی ہے کہ مستقبل کا سارا نقشہ دھندلا جاتا ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=69rM2z8Z-Ow
اگر ہم ماضی کے جھروکوں سے لپکنے والی ان تاریک اور تلخ یادوں کا تنقیدی جائزہ لیں تو سارا فساد وہ ذاتیات پر مبنی حملے ہیں۔ دونوں جماعتوں نے نوے کی دہائی سے آج تک مختلف اوقات میں ایک دوسرے پر ان گنت اور انتہائی سنگین الزامات لگائے اور ذاتیات کی سیاست کا ایسا باب رقم کیا کہ شائد چند مزید چارٹر آف ڈیموکریسی بھی اس کالک کو دھونے میں ناکام رہیں۔
ان الزامات میں ملک دشمنی سے لے کر غداری اور کرپشن کی ایک طویل اور نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔ دونوں جماعتوں نے اپنے سیاسی کاٹھ کا میعار دوسری جماعت کے خلاف مخاصمت رکھا۔ اور پھر اس الزام تراشی اور ملامت میں نچلی سطح تک ورکرز بھی شامل ہو گئے۔ اور اس سارے معاملے میں نظریات کا جنازہ بڑی دھوم سے نکلا۔
جب محترمہ بے نظیر حیات تھیں تو ایک چارٹر آف ڈیموکریسی ہوا۔ اس معاہدے کا محور آمریتوں کا راستہ روکنا تھا مگر اپنے طرز حکمرانی اور سیاسی روش کو درست کرنے کا جو موقع ان جماعتوں کو اس معاہدے کی صورت میں ملا وہ دونوں نے ہی گذشتہ ایک دہائی میں دانستہ کھو دیا۔ وہی غلطیاں دہرا ئیں اور اب ایک اور چارٹر کی بات ہو رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے سیاسی اختلافات اگر نظریات کی بنیاد پر ہوتے تو ایک اور چارٹر کا ذکر آج کوئی نہ کر رہا ہوتا۔ اور اس ضمن میں کچھ بنیادی سوال بھی ہیں جن کے جوابات بلاول اور نواز شریف دونوں کے لئے ضروری ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=fkX7NnGYCd4
پہلا سوال یہ ہے کہ ن لیگ نے محترمہ کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اگر وہ زندہ رہتیں تو کیا اس معاہدے کا یہی انجام ہوتا؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ آج بلاول کے ساتھ اگر اتحاد کیا جائے تو کیا اس اتحاد کا انجام مختلف ہو گا؟ لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سیاسی ڈوریاں ابھی تک زرداری صاحب کے پاس ہی ہیں۔
دراصل ان سوالات کے جواب ہی اس سارے معمے کا حل تجویز کر سکتے ہیں۔ اس ساری رام کتھا میں اہم بات یہی ہے کہ ذاتیات پر مبنی سیاست سے جو نقصان پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کا ہوا اس سے کہیں زیادہ نقصان عوامی سیاسی ایجنڈے کا ہوا۔
اس کا ادراک شاید ابھی بھی ملک کی بڑے سیاسی جماعتوں میں نہیں۔ مگر پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی اس لڑائی سے شائد تحریک انصاف کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایشوز پر سیاست کرنے کے دور کا آغاز کرنا ہوگا ورنہ مستقبل کے لئے ہر کی جانے والی کوشش کا راستہ بار بار ماضی کے دلدل میں اترتا رہے گا۔ اگر پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان کا اتحاد واضح نکات پر اپنے ووٹرز کو اعتماد میں لیتے ہوئے نہ ہوا تو دونوں جماعتوں کا بحران شدید ہو جائے گا کیونکہ ظاہری علامتیں یہ بتاتی ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت اس بیانیے کو کامیاب کرا چکی ہے کہ یہ دونوں جماعتیں اپنے خلاف چلنے والے مقدمات اور کرپشن کے الزامات سے بچاؤ کے لئے متحد ہو رہی ہیں۔ اس وقت اپوزیشن جماعتوں کا سب سے بڑا چیلنج اس بیانیے کا جواب دینا ہے۔