مریم بلاول ملاقات: ایک اور چارٹر آف ڈیموکریسی غیر جمہوری نظام کو زمیں بوس کر دے گا

مریم بلاول ملاقات: ایک اور چارٹر آف ڈیموکریسی غیر جمہوری نظام کو زمیں بوس کر دے گا
یہ ذکر ہے اس دور کا جب آمر جنرل پرویز مشرف کا اقتدار بام عروج پر تھا۔ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت جلا وطن تھی اور ملک میں موجود سیاسی قیادت کو عقوبت خانوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ جاوید ہاشمی کو جون جولائی کی تپتی دوپہروں میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں خوار کیا جاتا تھا اور مشاہداللّٰہ خان اور سعد رفیق جیسے رہنماؤں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ پپیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی بھی نیب کے زیر عتاب تھے اور ان کا بھی حال کچھ یہی تھا۔

چارٹر آف ڈیموکریسی 1973 کے آئین کے بعد سب سے بڑی دستاویز

آمر مشرف کو یقین تھا کہ اس کے اقتدار کا سورج وردی اور بربریت کی مدد سے ہمیشہ چمکتا رہے گا۔ لیکن پھر ملک کی دو مرکزی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے ماضی کے اختلافات اور رنجشیں بھلا کر ملک کی جمہوری تاریخ کا سب سے بڑا معاہدہ "چارٹر آف ڈیموکریسی" تیار کیا۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کو اس وطن کی جمہوری تاریخ میں 1973 کے آئین کے بعد سب سے بڑی دستاویز قرار دیا جا سکتا ہے جس کے تحت دونوں مرکزی جماعتوں نے یہ طے کیا کہ آئندہ وہ نہ تو کسی منتخب حکومت کو گرانے کی سازشوں میں شریک ہوں گے اور نہ ہی کسی غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کا حصہ بنیں گے۔



اسی معاہدے نے مشرف کو این آر او اور نواز شریف کی جلاوطنی ختم کرنے پر مجبور کیا

اس دستاویز میں یہ بھی طے پایا کہ جمہوریت ہی ملک کو آگے لے جانے کا واحد راستہ ہے اور جمہوریت اختیارات کو صوبوں اور نچلے درجے تک اقتدار کی فراہمی سے ہی پنپ سکتی ہے۔ مرحومہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی اس دور کی ملاقاتوں کی جھلک اور چارٹر آف ڈیموکریسی جیسا معاہدہ پاکستان کی جمہوری تاریخ کا ایک انتہائی اہم باب ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ "غیر جمہوری قورتیں" ہمیشہ چارٹر آف ڈیموکریسی جیسے معاہدے سےخائف نظر آتی ہیں کیونکہ اسی معاہدے کے باعث مشرف ایک جانب بینظیر بھٹو سے مذاکرات پر مجبور ہوا اور دوسری جانب اسے نواز شریف کی جلاوطنی بھی ختم کرنا پڑی۔

غیر جمہوری نظام میں انسانی حقوق پامال اور آزادی اظہار سلب کی جا رہی ہے

گو بینظیر بھٹو نے اس جدوجہد میں اپنی جان گنوا دی لیکن ملک سے مشرف کی آمریت کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کے بعد حالات بدلے اور پیپلز پارٹی اور نواز لیگ ایک دوسرے کے خلاف عدم تحفظات اور ناراضگیوں کا شکار بھی رہے لیکن جیسے تیسے کر کے جمہوری نظام پنپتا رہا۔ "غیر جمہوری قوتوں" کو جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے اور ایک دھاندلی زدہ انتخابات منعقد کروا کر ملک میں ایک کٹھ پتلی کے ذریعے پردے کے پیچھے سے اپنی حکومت بنانے میں 10 سال لگ گئے۔ آج جب وطن عزیز پر ایک بار پھر ایک "کٹھ پتلی" کے ذریعے بلاواسطہ آمریت کا راج قائم کیا جا چکا ہے جس میں انسانی حقوق کی پامالی سے لے کر اظہار رائے اور صحافت پر قدغنیں عائد ہیں۔



ایک طرف بینظیر شہید کا بیٹا، دوسری طرف پابندِ سلاسل نواز شریف کی بیٹی؛ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے

ایسے میں بلاول بھٹو اور مریم نواز کی رائیونڈ میں ہونے والی ملاقات کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ اپنا آپ دہرا رہی ہے۔ ایک جانب بینظیر کا بیٹا اور دوسری جانب پابند سلاسل نواز شریف کی دختر کا اکٹھے بیٹھ کر اس مصنوعی جمہوریت کے پردے کے پیچھے چھپی آمریت کے خلاف یکجا ہو کر آگے بڑھنے کے اقدامات پر غورو خوص جہاں یہ ثابت کرتا ہے کہ جمہوری اقداروں کے امین افراد ایک دوسرے سے شخصی نہیں بلکہ نظریاتی اختلافات رکھتے ہیں، وہیں اسے دیکھ کر یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ اختلاف رائے برداشت کرنے اور اختلافات بھلا کر متحد ہو کر آگے بڑھنے کی رواداری کی قوت محض جمہوری قوتوں کے پاس ہی ہوا کرتی ہے۔

لیکن کیا یہ ثبوت نہیں کہ آمریت نے ملک کو پنجوں میں جکڑ رکھا ہے؟

دوسری جانب مریم اور بلاول کو ملتے دیکھ کر یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ اس وطن کو آمریت کی بدروحوں نے آج بھی اپنے شکنجوں میں قید کر رکھا ہے۔ یہ ملاقات بینظیر اور نواز شریف کی اگلی نسل کے مابین ہے اور یہ نسل بھی اپنے بزرگوں کی مانند آمریت سے نبرد آزما ہے۔ آصف زرداری بھی قید و بند میں ہیں جبکہ نواز شریف ایک ایسے جرم کی پاداش میں جیل میں قید ییں جس کا فیصلہ تحریر کرتے وقت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر اپنی نگاہیں اونچی نہیں کر پائے تھے۔



ایسی چند مزید ملاقاتیں بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہیں

بلاول اور مریم نواز کی ملاقات مستقبل میں بساط سیاست کا نقشہ بدلنے میں کس قدر کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے اس کا اندازہ تحریک انصاف کی حکومت کی بوکھلاہٹ اور سرکاری اداروں میں اہم پوزیشنوں پر ٹرانسفریں دیکھ کر باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ گو مستقبل قریب میں مریم بلاول ملاقات کوئی انقلاب نہیں رونما کرے گی لیکن اس طرح کی چند اور ملاقاتیں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے مابین ایک نئے چارٹر آف ڈیموکریسی کی بنیاد بن سکتی ہیں، جو آگے چل کر محض عمران خان یا تحریک انصاف کو ہی نہیں بلکہ مقتدر قوتوں کی بچھائی گئی بساط کو لپیٹنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

بجٹ پاس کروانا کوئی مشکل کام نہیں ہوگا

چونکہ سیاست میں اصل اہداف کبھی بھی وقت سے پہلے میڈیا کے ذریعے مخالفین تک نہیں پہنچائے جاتے، اس لئے بلاول کی جانب سے میڈیا کو بتایا گیا کہ ملاقات میں دونوں جماعتوں نے عوام دشمن بجٹ کو اسمبلی سے پاس نہ ہونے دینے کی بات پر اتفاق کیا ہے۔ حالانکہ جن قوتوں نے دن دہاڑے عوامی مینڈیٹ چرا کر عمران خان کو مسند اقتدار پر بٹھایا ان کے لئے اپوزیشن کے اور بہت سے ارکان کو گرفتار کر کے یا انہیں ڈرا دھمکا کر بجٹ دونوں ایوانوں سے پاس کروانا ہرگز بھی مشکل ثابت نہ ہو گا۔



اپوزیشن ارکان اور صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہونے کو ہے؟

بلاول مریم ملاقات کے ملکی سیاست پر اثرات اگلے پانچ سے چھ ماہ میں مرتب ہونا شروع ہوں گے اور اگر ذرائع درست کہتے ہیں تو عنقریب اپوزیشن ارکان کی گرفتاریوں اور مثبت رپورڑنگ نہ کرنے والے صحافیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا جائے گا۔ ملک کی دگرگوں معاشی صورتحال جس تیزی سے مزید ابتری کا شکار ہو رہی ہے اور ایسے حالات میں اسٹیبلشمنٹ کا اقتصادی کونسل میں ایک اہم کردار لینا اس بات کی واضح نشانی ہے کہ دھیرے دھیرے جمہوریت کے لبادے میں چھپا آمریت کا یہ نظام اپنی بنیادیں کھو رہا ہے اور جس دن مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی نے چارٹر آف ڈیموکریسی طرز کا ایک نیا معاہدہ طے کر لیا، اس دن کمزور بنیادوں پر کھڑا یہ مصنوعی سیاسی نظام زمیں بوس ہو جائے گا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ماضی کی مانند مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی اپنے حالیہ اختلافات بھلا پائیں گی؟

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔