رویت کا تنازع حل کرنے کے لیے کمیٹی قائم، نوٹیفیکیشن جاری

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کا کہنا ہے کہ انہوں نے چاند کی رویت کا تنازع حل کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا، کمیٹی کے قیام کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے نوٹیفیکیشن کا عکس بھی شیئر کیا۔

وفاقی وزیر کی جانب سے شیئر کیے جانے والے نوٹیفیکیشن کے مطابق، چاند کی رویت کے معاملے پر وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔

کمیٹی کے سربراہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے جوائنٹ سائنٹفک ایڈوائزر ڈاکٹر محمد طارق مسعود ہوں گے جب کہ دیگر ارکان میں محکمہَ موسمیات سے ڈاکٹر وقار احمد، ندیم فیصل، ابو نسان اور سپارکو سے غلام مرتضیٰ شامل ہیں۔



واضح رہے کہ دو روز قبل ہی پاکستان تحریک انصاف کی برسراقتدار حکومت نے آئندہ 10 برسوں کے لیے اسلامی کیلنڈر کے تعین اور چاند کی رویت کے معاملے پر اختلافات دور کرنے کے لیے کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا تھا۔

یہ اعلان وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے ٹویٹر پر کیا تھا۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا تھا، پاکستان میں رویت کے معاملے پر تنازع کو ختم کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو آئندہ 10 برسوں کے لیے اسلامی کیلنڈر مرتب کرے گی۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کمیٹی پانچ ارکان پر مشتمل ہو گی جس میں سپارکو، محکمہَ  موسمیات اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین شامل ہوں گے۔

فواد چودھری کا کہنا تھا، کمیٹی عیدین، محرم اور رمضان سمیت پورے 12 مہینوں کا کیلنڈر مرتب کرے گی۔ یوں رویت پر ہر سال پیدا ہونے والا تنازع ختم ہو جائے گا۔

فواد چودھری نے اپنے ایک اور ٹویٹ میں کہا تھا، رویت ہلال کمیٹی بھی اس وقت دوربین سے ہی چاند دیکھتی ہے، اگر پرانی ٹیکنالوجی استعمال کی جا سکتی ہے تو جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیوں نہیں کیا جا سکتا؟

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے کہا، ان کی وزارت نے فیصلہ کر لیا ہے، ہم بہت جلد ایک کیلنڈر مرتب کر کے منظوری کے لیے وفاقی کابینہ میں پیش کر دیں گے جس کے بعد کابینہ کے پاس اسے منظور کرنے یا مسترد کرنے کا اختیار ہو گا۔



وفاقی وزیر سے جب ویب سائٹ پر یہ سوال کیا گیا کہ کیا مذہبی طبقہ یہ فیصلہ قبول کر لے گا؟ انہوں نے اس سوال کا جواب کچھ یوں دیا، ملک چلانے کا فیصلہ مولانا پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔

فواد چودھری نے دعویٰ  کیا کہ اگر مذہبی طبقے کے قبول کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ ہوتا تو پاکستان کا قیام ہی عمل میں نہ آتا کیوں کہ پاکستان کے تمام بڑے علماء نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔

انہوں نے واضح کیا، ملک کے مستقبل کا تعین ’’مولویوں‘‘ نے نہیں بلکہ نوجوانوں نے کرنا ہے اور ٹیکنالوجی ہی کسی ملک کو ترقی کے سفر پر آگے لے جا سکتی ہے۔