عدلیہ میں مداخلت کا کیس: کراچی بار ایسوسی ایشن کی تجاویز سپریم کورٹ کو ارسال

سپریم کورٹ میں پیش کردہ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ اگر سرکاری کام کے لیے حساس اداروں کے افسروں سے ملنا ضروری ہو تو مجاز حکام کو آگاہ کیا جائے۔ مداخلت سے آگاہ کرنے میں ناکامی کو جج کا مس کنڈکٹ قرار دیا جائے۔

عدلیہ میں مداخلت کا کیس: کراچی بار ایسوسی ایشن کی تجاویز سپریم کورٹ کو ارسال

چھ جج کے عدلیہ میں مداخلت  سے متعلق خط کے معاملے پر اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ سپریم کورٹ میں زیر سماعت عدلیہ میں مداخلت سے متعلق کیس میں کراچی بار ایسوسی ایشن نے اپنی تجاویز سپریم کورٹ میں جمع کراتے ہوئے کہا ہے کہ ججز کو مداخلت کی ہر کوشش سے دستیاب تمام تفصیلات کے ساتھ 7 روز میں مجاز اتھارٹی کو آگاہ کرنے کا پابند کیا جائے۔

کراچی بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دی گئی تجاویز میں کہا گیا ہے کہ مجاز اتھارٹی کوبھی پابند کیا جائے کہ رپورٹ کرنے والے ججز کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ عدم تحفظ کے باعث بہت سے ججز ایسے واقعات سے مجاز حکام کو آگاہ ہی نہیں کرتے۔

مداخلت کی کوشش ریاستی اداروں سے ہو، خود عدلیہ سے یا نجی سیکٹر سے، ہر صورت آگاہ کیا جائے۔ عدلیہ اور حکومت کے درمیان فائر وال ہمیشہ قائم رہنی چاہیے۔قریبی رشتہ داروں کے علاوہ ججز کو سرکاری حکام اور انٹیلیجنس نمائندوں کے ساتھ ملنے سے اجتناب برتنا چاہیے۔

کراچی بار ایسوسی ایشن کی تجاویز کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں عدلیہ میں مداخلت رپورٹ کرنے کے لیے خصوصی سیل قائم کے جائیں اور مداخلت کے حوالے سے غلط بیانی کرنے والے ججز کی خلاف کارروائی کی جائے۔

سپریم کورٹ میں پیش کردہ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ اگر سرکاری کام کے لیے حساس اداروں کے افسروں سے ملنا ضروری ہو تو مجاز حکام کو آگاہ کیا جائے۔ اسی طرح مداخلت سے آگاہ کرنے میں ناکامی کو جج کا مس کنڈکٹ قرار دینے کی بھی تجویز سپریم کورٹ کو بھیجی گئی ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

مزید کہا گیا کہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کے صوابدیدی اختیارات کا بھی جائزہ لیا جائے۔بینچز کی تشکیل اور مقدمات مقرر کرنے کا اختیار صرف چیف جسٹس کے پاس ہونا درست نہیں۔ہائی کورٹس میں بینچز کی تشکیل اور مقدمات مقرر کرنے کا فیصلہ ججز کی 3 رکنی کمیٹی کرے۔

کراچی بار ایسوسی ایشن کے مطابق شہریوں کی جاسوسی اور انٹیلی جنس رپورٹس کی تیاری غیرقانونی ہے۔ آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی کو کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کا شہریوں کے خلاف کیا گیا ہر اقدام غیرآئینی ہے۔ حکومت کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حوالے سے قانون سازی کی ہدایت کی جائے۔ سپریم کورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کی آزادانہ تحقیقات کرائے۔ عدالت ذمہ داران کا تعین کرکے سخت کارروائی کا حکم دے۔

اس سے قبل 27 اپریل کو  اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدلیہ میں مداخلت کے معاملے پر متفقہ تجاویز سپریم کورٹ کو ارسال کی تھیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ججز کوڈ آف کنڈکٹ ڈرافٹ بھی بطور تجویز اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے شامل کیا گیا ہے یہ کوڈ آف کنڈکٹ ڈرافٹ چھ سے سات صفحات پر مشتمل ہے۔

ذرائع کے مطابق تجاویز میں کہا گیا کہ کسی قسم کی مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل ہونا چاہیے، سول جج، سیشن جج، ہائی کورٹ جج کسی قسم کی مداخلت رپورٹ کرنے کا پابند ہو، مداخلت سے متعلق سات روز میں رپورٹ کرنا لازم ہو، سات روز میں مداخلت رپورٹ نہ کرنے والا جج مس کنڈکٹ کا مرتکب ٹھہرے۔

تجویز دی گئی  کہ سول جج ، سیشن جج اور سیشن جج مداخلت ہونے پر ہائی کورٹ کے انسپکشن جج کو آگاہ کرے، انسپکشن جج چیف جسٹس ہائی کورٹ کے نوٹس میں مداخلت کا معاملہ لائے، ہائیکورٹ ایڈمنسٹریٹو کمیٹی معاملے کو ایڈمنسٹریٹو سائیڈ پر دیکھنے یا جوڈیشل سائیڈ پر دیکھنے کا حتمی فیصلہ کرے اور  ایڈمنسٹریٹو کمیٹی معاملے کی سنگینی کے پیش نظر فل کورٹ میں بھی بھیج سکے۔

ذرائع کے مطابق یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ حتمی طور پر ہائی کورٹ ادارہ جاتی اتفاق کے ساتھ توہین عدالت کا اپنا اختیار استعمال کرسکے۔