جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کو ریٹائرمنٹ میں تبدیل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری

وزارت قانون کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا 11 اکتوبر 2018 کا نوٹیفکیشن واپس لیا جاتا ہے ان کی ریٹائرمنٹ 30 جون 2021 سے شمار ہوگی۔

جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کو ریٹائرمنٹ میں تبدیل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری

وزارت قانون وانصاف نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا نوٹیفکیشن واپس لے کر ان کی ریٹائرمنٹ کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

سپریم کورٹ کے 22 مارچ 2024 کے فیصلے کی روشنی میں صدرمملکت آصف علی زرداری نے جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کی ریٹائرمنٹ کی منظوری دی تھی۔

وزارت قانون کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا 11 اکتوبر 2018 کا نوٹیفکیشن واپس لیا جاتا ہے ان کی ریٹائرمنٹ 30 جون 2021 سے شمار ہوگی۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر، آئین کے آرٹیکل 209(6) کے تحت ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر الزام تھا کہ انہوں نے 21 جولائی کو راولپنڈی بار کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے حساس ادارے کے خلاف بیان دے کر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی جس کے بعد وہ اپنے عہدے پر رہنے کے اہل نہیں رہے۔

خطاب میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ ملکی خفیہ ایجنسی عدالتی امور میں مداخلت کررہی ہے اور خوف و جبر کی فضا کی ذمہ دار عدلیہ بھی ہے جب کہ میڈیا والے بھی گھٹنے ٹیک چکے ہیں اور سچ نہیں بتا سکتے، میڈیا کی آزادی بھی بندوق کی نوک پر سلب ہو چکی ہے۔

بعد ازاں شوکت عزیز صدیقی نے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور اپنی ترمیم شدہ درخواست میں 7 افراد کو نامزد کیا تھا لیکن عدالت نے کہا تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق بریگیڈیئرز فیصل مروت اور طاہر وفائی کا معاملے سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی کی آئینی درخواستوں پر سماعت رواں برس 23 جنوری کو مکمل کرتے ہوئے 22  مارچ کو ان کی برطرفی کا سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کو غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے جب کہ 11 اکتوبر 2018 کو وزیراعظم کی سفارش پر صدر نے ان کی برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری کیا اسے بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہےکہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بحال نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں ریٹائرڈ جج تصور کیا جائے۔ وہ بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ ریٹائرڈ اور تمام مراعات وپینشن کے حقدارہوں گے۔ انہیں پینشن سمیت تمام مراعات ملیں گی۔