پی سی بی میں سیاسی مداخلت اور بدعنوانی کی اندرونی کہانی

آئی پی سی اور سرپرست اعلیٰ وزیر اعظم جانتے ہیں کہ ذکا کے پاس بیچلر ڈگری نہیں، اس لیے وہ چیئرمین منتخب ہونے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ وہ جانتے ہیں کہ ذکا نہ صرف نااہل ہیں بلکہ ان پر بدعنوانی کے الزامات بھی ہیں۔ اس کے باوجود وہ ذکا اشرف کے غیر قانونی اقدامات میں معاونت کر رہے ہیں۔

پی سی بی میں سیاسی مداخلت اور بدعنوانی کی اندرونی کہانی

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے ذکا اشرف کو بطور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ ( پی سی بی) تین ماہ کی توسیع کیوں دی ہے جبکہ ہر حوالے سے ان کا 4 ماہ کا دور سنگین نوعیت کی غیر قانونی سرگرمیوں سے عبارت تھا جو پاکستان کے لیے عالمی سطح پر شرمندگی کا باعث بنا؟ اندر کی کہانی یہ ہے۔

اپریل 2022 میں پی ڈی ایم کی حکومت کو سینکڑوں کرکٹروں نے فیڈ بیک دیتے ہوئے مطلع کیا کہ سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا 2019 میں نافذ کیا گیا ڈومیسٹک کرکٹ کا ڈھانچہ وقت کی ضروریات سے مناسبت نہیں رکھتا۔ انہوں نے تمام ڈیپارٹمنٹ کرکٹ ختم کر دی تھی جس نے 1960 کی دہائی سے ہزاروں نوجوان کرکٹروں کی روزی کا بندوبست کرتے ہوئے ان کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے میں مدد کی تھی۔ نیز چیئرمین تحریک انصاف نے ڈومیسٹک ٹورنامنٹوں میں حصہ لینے والی فرسٹ کلاس ٹیموں کی تعداد 16 سے کم کر کے 6 کر دی تھی۔ اس فیڈ بیک کے نتیجے میں پی ڈی ایم حکومت نے بیک جُنبشِ قلم ڈیپارٹمنٹ کرکٹ بحال کر دی، اور اس مقصد کے لیے بنایا گیا 2014 کا پی سی بی کا آئین بحال کرنے کا کام شروع کر دیا۔

اس سلسلے میں سب سے پہلا قدم عمران خان کے نافذ کردہ 2019 کے پی سی بی کے آئین، اور اس سے وابستہ کرکٹر رمیز راجہ کی قیادت میں قائم بورڈ آف گورنرز کو تحلیل کرنا تھا۔ لیکن پھر ایک غیر متوقع رکاوٹ نے حکومت کو اس اقدام سے روک دیا۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سفارش کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کو رمیز راجہ کو برقرار اور صورت حال کو جوں کا توں رکھنے کا 'مشورہ' دیا۔ اگلے 8 ماہ، گویا جنرل قمر باجوہ کی رخصتی تک ان کی مداخلت اور رمیز راجہ کے بلا سوچے سمجھے کیے گئے 'تجربات' کی وجہ سے پی سی بی اور قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی گرتی گئی۔

آخرکار 22 دسمبر 2022 کو پی ڈی ایم حکومت نے 2014 کے آئین کو بحال کرتے ہوئے رمیز راجہ کی قیادت میں قائم کرکٹ اسٹیبلشمنٹ کو چلتا کر دیا اور نجم سیٹھی کی قیادت میں ایک مینجمنٹ کمیٹی قائم کر دی۔ پی سی بی کے سابق چیئرمین، نجم سیٹھی جنہوں نے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) شروع کیا تھا اور انٹرنیشنل کرکٹ کو واپس پاکستان لائے تھے، نے ڈیپارٹمنٹ کرکٹ اور پرائیویٹ کلبوں کو بحال کیا، 100 سے زیادہ ڈسٹرکٹ اور 16 ریجنل انتخابات کا انعقاد کرایا تاکہ عہدے داران منتخب ہو کر ایک جمہوری بورڈ آف گورنرز تشکیل دیں اور پھر 10 رکنی بورڈ آف گورنرز چیئرمین کا انتخاب کرے۔

بدقسمتی سے اس پیش رفت میں اب ایک اور سیاسی رکاوٹ حائل ہو گئی۔ کولیشن گورنمنٹ میں بین الصوبائی ہم آہنگی (آئی پی سی) کی وزارت سابق صدر پاکستان کی جماعت، پیپلز پارٹی کے پاس تھی جو ملک میں سپورٹس کے تمام امور کی نگرانی کرتی ہے۔ یہ وزارت چاہتی تھی کہ نجم سیٹھی کے بجائے پی سی بی کی نئی اسٹیبلشمنٹ کی قیادت اس کے نامزد کردہ چیئرمین ذکا اشرف کے پاس ہو جو پیپلز پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے رکن اور چینی کا کاروبار کرنے والے سیٹھ ہیں اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مالیاتی تعاون کرتے رہتے ہیں۔

چند ماہ تک یہی رسہ کشی چلتی رہی، یہاں تک کہ شہباز شریف نے ہار مان لی اور نجم سیٹھی کے بجائے ذکا اشرف کو پی سی بی کا چیئرمین لگا دیا۔

ذکا اشرف کو اس سے پہلے 2011 میں صدر پاکستان آصف زرداری، جو پی سی بی کے سرپرست اعلیٰ بھی تھے، نے چیئرمین پی سی بی مقرر کیا تھا۔ 2013 میں جب آصف زرداری ایوان صدر سے رخصت ہونے والے تھے تو ذکا اشرف نے یہ خدشہ محسوس کرتے ہوئے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی منتخب ہونے والی حکومت اُنہیں چلتا کر دے گی، انوں نے صدر زرداری کو پی سی بی کے ایک نئے آئین کی منظوری دینے کے لیے قائل کر لیا جس کے تحت ذکا اشرف کو مزید چار سال کے لیے چیئرمین 'منتخب' کر لیا جائے۔ لیکن ان کے مخالفین نے اس خود ساختہ آئین کے تحت ہونے والے الیکشن کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ عدالت نے ذکا اشرف کی چھٹی کرا دی اور نئی حکومت کو ایک عبوری چیئرمین مقرر کرنے کا حکم دیا جو جمہوری آئین بنائے اور پی سی بی سے منسلک تمام تنظیموں کے انتخابات کرائے۔

وزیر اعظم نواز شریف، جو پی سی بی کے نئے سرپرست اعلیٰ تھے، نے نجم سیٹھی کو یہ ذمہ داری سونپی، لیکن ذکا اشرف نے اس فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا اور عہدے پر واپس آ گئے۔ سپورٹس کے قوانین کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے حکومت نے ذکا اشرف کو برطرف کر کے نجم سیٹھی کو دوبارہ چیئرمین پی سی بی مقرر کر دیا۔ یہ کیس سپریم کورٹ تک جا پہنچا، جس نے حکومت کے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے 2014 کے آئین کی منظوری دے دی۔ یہ آئین سپریم کورٹ کے دو سابق ججوں نے بنایا تھا۔

اس کے بعد 2014 کے آئین کے تحت ایک بورڈ آف گورنرز قائم کیا گیا۔ سابق سیکرٹری خارجہ شہریار محمد خان جو پی سی بی کے چیئرمین بھی رہ چکے تھے، کو اس کا چیئرمین اور نجم سیٹھی کو نئے بورڈ آف گورنرز کا رکن منتخب کر لیا گیا۔ 2017 میں نجم سیٹھی پی سی بی کے چیئرمین منتخب ہوئے، لیکن جب 2018 میں عمران خان وزیر اعظم بنے تو انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ عمران خان نے احسان مانی کو نیا چیئرمین بنایا جنہوں نے 2014 کا آئینی ڈھانچہ لپیٹ دیا، 2019 میں نیا آئین بنایا اور اس کے تحت 2021 میں رمیز راجہ کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین نامزد کر دیا۔

راجہ کی رخصتی کے بعد سیٹھی کی مینجمنٹ کمیٹی نے 6 ماہ تک کام کیا۔ اس دوران اس نے وہ کام کیا جو اس کے ذمے لگایا گیا تھا۔ اس نے مقامی کرکٹ کے ڈھانچے کے تمام سطحوں پر الیکشن کرائے اور ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کو بحال کیا۔ 20 جون 2023 کو اپنی مدت ختم ہونے سے ایک دن پہلے اس نے 4 منتخب علاقائی صدور اور 4 ڈیپارٹمنٹ سربراہوں کے ایک 10 رکنی آئینی بورڈ آف گورنرز کو نوٹی فائی کر دیا۔ اب چیئرمین کا الیکشن ہونے کے لیے سرپرست اعلیٰ، وزیر اعظم کی طرف سے کی جانے والی صرف دو نامزدگیوں کی ضرورت تھی۔ اور یہاں سے معاملات بگڑنا شروع ہو گئے۔

ڈرتے ہوئے کہ نیا بورڈ آف گورنرز انہیں منتخب نہیں کرے گا، ذکا اشرف نے آئی پی سی، جس کی وزارت پیپلز پارٹی کے وزیر احسان مزاری کے پاس تھی، پر زور دیا کہ نجم سیٹھی کے عہدے کی مدت کے اختتام کو 21 جون کے بجائے 20 جون قرار دے کر ان کی قائم کردہ مینجمنٹ کمیٹی کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔ آئی پی سی نے پی سی بی کے آزاد الیکشن کمشنر کو بھی برطرف کر دیا جو سپریم کورٹ کے ایک ایڈووکیٹ تھے، اور ان کی جگہ ذکا اشرف کی مجوزہ نامزدگی اور الیکشن کرانے کے لیے ایک من پسند وکیل کو چن لیا۔ اس نے پھر ذکا اشرف کو نئی مینجمنٹ کمیٹی کا سربراہ نامزد کر دیا تاکہ 4 ماہ کے اندر نیا بورڈ آف گورنرز تشکیل دیا جائے اور چیئرمین کے عہدے کے لیے الیکشن کرائے جا سکیں۔

ذکا اشرف اور آئی پی سی کی بدقسمتی کہ کئی ایک متاثرہ سٹیک ہولڈرز نے ان فیصلوں کو لاہور، کوئٹہ اور پشاور ہائی کورٹس میں چیلنج کر دیا۔ ایک کیس میں حکم امتناع حاصل کرتے ہوئے ذکا اشرف کو بورڈ میں قدم جمانے سے روک دیا گیا۔ ایک اور کیس میں ان کی پی سی بی میں بھاری بھرکم تنخواہ والی 70 ملازمتوں پر جلد بازی میں کی گئی نامزدگیوں کو چیلنج کر دیا گیا کیونکہ اُن کی مینجمنٹ کمیٹی کو بورڈ کے صرف روزمرہ کے معاملات نمٹانے کی اجازت دی گئی تھی۔ ایک اور کیس میں آئی پی سی کے نوٹیفیکشنز کو غیر قانونی ہونے پر چیلنج کر دیا گیا۔

اس دوران آئی پی سی نے بورڈ آف گورنرز بنانے، اور جب پشاور ہائی کورٹ نے حکم امتناع تحلیل کر دیا تو الیکشن کرانے کے لیے ذکا اشرف کی حوصلہ افزائی کی۔ لیکن ذکا اشرف نے ایک وجہ سے بورڈ آف گورنرز تشکیل دینے اور چیئرمین کا الیکشن کرانے سے گریز کیا؛ ان کے پاس بیچلر کی ڈگری نہیں ہے، جو کہ پی سی بی کے چیئرمین کے عہدے کے لیے آئینی شرط ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی پی سی کی وزارت، پی ڈی ایم حکومت اور اب نگران حکومت، سب اس بات کو جانتے ہیں لیکن انہیں ہی چیئرمین پی سی بی بنائے رکھنے کے فیصلے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

ذکا اپنے سب سے بڑے دشمن خود ہی ثابت ہوئے ہیں۔ ان کے فیصلے غیر قانونی اور من مانی سے کیے گئے ہیں۔ ان کا ذاتی طرز عمل کسی طور چیئرمین پی سی بی کے عہدے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مقامی اور عالمی میڈیا نے، خاص طور پر انڈیا میں ہونے والے عالمی کپ کے موقع پر ان کی خوب کھنچائی کی، جس کی وجہ سے پاکستان کو شرمندگی اٹھانا پڑی ہے۔ انضمام الحق کو چیف سلیکٹر نامزد کرنے سے ان کی کوتاہ بینی کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ انضمام الحق کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ کئی ایک کھلاڑیوں اور ان کے ایجنٹ کا بزنس پارٹنر ہے۔ عالمی کپ کے دوران ان میں کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھانے کی صلاحیت کا فقدان بھی میدان میں ناکامی کی ایک وجہ ہے۔

پی ڈی ایم اور نگران حکومتوں کی ناخوش گوار سیاسی مداخلت کی وجہ سے پیش آنے والی تازہ ترین صورت حال سے پتہ چلتا ہے کہ ذکا اشرف کو مزید تین ماہ تک کام کرنے کا موقع دے دیا گیا ہے۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک ٹی وی چینل کو بتایا کہ ذکا اشرف کی قسمت کا فیصلہ ورلڈ کپ ختم ہونے کے بعد کیا جائے گا۔ تاہم ایک دن بعد وزیر اعظم نے ان کی تین ماہ کی توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ لیکن پھر نوٹیفکیشن نے اپنے ہی مقصد کی نفی کرتے ہوئے ذکا اشرف کو روزمرہ کے امور تک محدود کر دیا اور انہیں واضح طور پر طویل المدت فیصلے کرنے سے روک دیا جن میں فروری 2024 میں پی ایس ایل سے متعلق فیصلے بھی شامل ہیں جب پی بی سی کے حقوق کے اربوں روپوں کی انٹرنیشنل بولیوں اور معاہدوں کو حتمی شکل دی جائے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس نے طے کر دیا ہے کہ اب ان کی مینجمنٹ کمیٹی کو تین ماہ کے بعد مزید توسیع نہیں دی جائے گی، اور اسی وقت کے دوران اُنہیں ایک نیا بورڈ آف گورنرز قائم کرنا ہے اور چیئرمین کے لیے الیکشن کرانے ہیں۔

یہ تین ماہ کا عرصہ چار فروری 2024 کو تمام ہو گا۔ اس وقت تک ابھی نہ تازہ عام انتخابات ہوئے ہوں گے اور نہ ہی نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہوگا۔ اس سے کچھ سوالات اٹھتے ہیں؛ اگر نگران حکومت پی سی بی میں تبدیلی لانا چاہتی ہے تو معاملے کو تین ماہ تک التوا میں ڈالنے کے بجائے اسے ابھی قدم اٹھانا چاہئیے۔ اگر وہ چاہتی ہے کہ اگلی منتخب شدہ حکومت یہ فیصلہ کرے تو اسے ذکا اشرف کو کم از کم چار ماہ کی توسیع دینی چاہئیے تھی۔ اگر وہ ان کا ہاتھ روکنا چاہتی ہے تو ان سے جلد از جلد چھٹکارہ کیوں نہیں پا لیتی؟ اگلے تین ماہ میں اہم فیصلے کرنے کا اختیار دیے بغیر عہدے پر برقرار رکھنے کی کیا منطق ہے؟ یہ فیصلے دو برسوں کی ٹکٹوں اور پروڈکشن سروسز اور پی ایس ایل اور پی سی بی کے میڈیا اور کمرشل حقوق کے بارے میں ہیں، اور ان سب کا مالیاتی حجم کئی ارب روپوں کا ہے۔ آئی پی سی اور وزیر اعظم کے دفتر کے طرزعمل اور رویے میں منطق اور معقولیت کا فقدان دکھائی دیتا ہے، تاوقتیکہ وہ ذکا اشرف کو ورلڈکپ کے فوراً بعد ہٹانے کا فیصلہ کر چکے ہوں اور بس اس وقت کوئی بدمزگی پیدا کرنے سے گریز کر رہے ہوں۔

آئی پی سی اور سرپرست اعلیٰ وزیر اعظم جانتے ہیں کہ ذکا کے پاس بیچلر ڈگری نہیں، اس لیے وہ چیئرمین منتخب ہونے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ وہ جانتے ہیں کہ ذکا نہ صرف نااہل ہیں بلکہ ان پر بدعنوانی کے الزامات بھی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جو بھی بورڈ آف گورنرز بنا کر الیکشن میں دھاندلی کر لیں، اس اقدام کو آسانی سے عدالتوں میں چیلنج کر دیا جائے گا۔ اس کے باوجود وہ ذکا اشرف کے غیر قانونی اقدامات میں معاونت کر رہے ہیں۔ اب انہوں نے ذکا اشرف کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اہم فیصلے کرنے سے روک دیا ہے۔ قانون اور پی سی بی کے آئین کے مطابق اس مسئلے کو حل کرنے میں گذشتہ چار ماہ کے دوران عدالتوں کی طرف سے دکھائے جانے والے تساہل نے ابہام کو مزید بڑھا دیا ہے۔