عام انتخابات کروانے سے پاکستان کے مسائل حل ہو جائیں گے؟

اگر بھاری مینڈیٹ کے بجائے کوئی لولی لنگڑی حکومت آ جاتی ہے تو ملک کا پھر خدا ہی حافظ ہے کیونکہ پالیسیوں میں مستقل مزاجی لازمی ہوتی ہے۔ قیادت میں متواتر تبدیلیاں پالیسی میں تضادات کا باعث بن سکتی ہیں اور اس وقت ملک کو طویل مدتی پالیسیوں پر عمل درآمد درکار ہے جو بھاری مینڈیٹ والی حکومت ہی کر سکتی ہے۔

عام انتخابات کروانے سے پاکستان کے مسائل حل ہو جائیں گے؟

عام انتخابات کروانے سے پاکستان کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب پاکستانی سیاست دانوں کے پاس ہے، نہ بڑے بڑے نامور صحافیوں کے پاس اور نہ ہی معاشی ماہرین کے پاس۔ عوام کو تو اس بحث سے دور ہی رکھیں، وہ تو صرف بندر ناچ کا تماشہ دیکھنے والے ہیں۔ انہیں تو ہر کوئی استعمال کرنے میں لگا ہوا ہے اور یہ لوگ نہ سمجھنے والے ہیں۔ اگر عوام میں ایسا شعور ہوتا تو بندر کا ناچ دیکھنے کے لئے وہ یوں بے چین نہ ہوتے۔ اب ایک دفعہ پھر مداری بندر کا ناچ اور سانپ نیولے کی لڑائی کا انعقاد کرے گا جس میں یہی بے چارے لوگ استعمال ہوں گے۔ برسوں سے غائب فصلی بٹیرے پھر میدان میں اتر کر سادہ لوح عوام کو ٹوپی پہنا کر اسمبلیوں میں پہنچ کر عوام کو ٹھینگا دکھا دیں گے۔ ایک دفعہ پھر حکومت میدان میں آئے گی۔ اپوزیشن جماعت بنے گی اور یوں ایک نئی سیاست کا آغاز ہو جائے گا۔

یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ اس الیکشن سے جمہوری نظام کے آنے سے عام عوام کو کیا فائدہ ملے گا، اس بارے میں شاید ہمارے عوام سوچتے ہی نہیں، وہ زندہ باد مردہ باد کے نعروں میں گم ہیں۔ دوسری جانب ملک حالیہ برسوں میں بے شمار چیلنجز سے نبرد آزما رہا ہے، جن میں معاشی عدم استحکام اور سیاسی بحران سے لے کر سکیورٹی خدشات اور سماجی مسائل شامل ہیں۔ بہت سے شہری اور ماہرین یکساں حیران ہیں کہ کیا نئے انتخابات کا انعقاد ان مسائل کو حل کرنے اور ملک کو مزید مستحکم اور خوشحال مستقبل کی طرف لے جانے کا راستہ فراہم کر سکتا ہے۔

کسی بھی ملک میں انتخابات جمہوری نظام کی بنیاد ہوتے ہیں اور پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسے طریقہ کار کے طور پر کام کرتے ہیں جس کے ذریعے عوام اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے اور حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے کا حق استعمال کر سکتے ہیں۔ باقاعدہ، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ایک فعال جمہوریت کے بنیادی پہلو ہیں جس پر عمل کر کے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ مگر اس وقت ملک معاشی عدم استحکام، سیاسی انتشار، سکیورٹی خدشات، سماجی مسائل جیسی مشکلات سے نبرد آزما ہے جس میں دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے پے در پے حملے بھی ملک کو غیر مستحکم کر رہے ہیں۔

اگر سب سے پہلے ہم معاشی عدم استحکام کو لے لیتے ہیں تو پاکستان معاشی پریشانیوں سے نبرد آزما ہے، جن میں مہنگائی، بے روزگاری اور بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے شامل ہیں۔ پٹرول، گیس اور ڈیزل کی آئے روز بڑھتی قیمتوں نے عوام کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں۔ حکومتوں کے آنے جانے سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ وہی سب کچھ چلتا ہے جو آئی ایم ایف چاہتا ہے۔ وہ آج کسی چیز کی قیمت میں اضافے کا فیصلہ کر لیں یا کل کریں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سیاسی انتشار نے ملک میں سیاسی عدم استحکام اور قیادت میں بار بار تبدیلیاں دیکھی ہیں، جس کی وجہ سے ترقی اور پالیسیاں کوئی دور رس فائدہ نہیں پہنچا رہیں۔

سب سے اہم مسئلہ ملک بھر میں درپیش سکیورٹی چیلجنز ہیں جن میں روزانہ کی بنیاد پر تیزی آ رہی ہے اور ایسے ایسے ٹارگٹ پر حملے ہو رہے ہیں جس کے بارے میں ہمارے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں ہوتا۔ یعنی وطن عزیز پاکستان کو بیرونی اور اندرونی طور پر سکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔ دہشت گردی اور جغرافیائی سیاسی کشیدگی نے بھی ملک میں پریشانی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ افغانستان کے حوالے سے ہمارے ملک کی حالیہ پالیسی نے مزید مسائل پیدا کئے ہیں جس کے ثمرات مستقبل میں ملیں گے مگر کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ وہ ثمرات کیسے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں دیکھا جائے تو باقی شعبہ جات اور اداروں تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، اور غربت جیسے مسائل آبادی کے ایک بڑے حصے کو متاثر کر رہے ہیں۔

یہ تو وہ سارے مسائل ہیں جن سے آنے والی حکومت کو نبرد آزما ہونا ہے۔ اس کے لئے الیکشن کمیشن نے واضح احکامات جاری کر دیے ہیں کہ انتخابات وقت پر ہی ہوں گے اور ان انتخابات سے آنے والی مضبوط مینڈیٹ والی حکومت ملک کے مسائل کے حل کے لئے کوششیں کر سکتی ہے۔ اگر بھاری مینڈیٹ کے بجائے کوئی لولی لنگڑی حکومت آ جاتی ہے تو ملک کا پھر خدا ہی حافظ ہے کیونکہ پالیسیوں میں مستقل مزاجی لازمی ہوتی ہے۔ قیادت میں متواتر تبدیلیاں پالیسی میں تضادات کا باعث بن سکتی ہیں اور اس وقت ملک کو طویل مدتی پالیسیوں پر عمل درآمد درکار ہے جو بھاری مینڈیٹ والی حکومت ہی کر سکتی ہے۔

دوسری جانب یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے تو کہہ دیا ہے کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے تو کیا یہ ممکن ہے کیوںکہ اس وقت حکومت کو انتخابات کے انعقاد کے لیے کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس میں اولین سکیورٹی خدشات ہیں۔ گذشتہ کئی مہینوں سے پاکستان کی سکیورٹی کی صورت حال بدستور نازک ہے، جس کی وجہ سے بعض علاقوں میں انتخابات کا انعقاد مشکل ہو گا۔ انتخابی سالمیت پر بھی ایک سوال اٹھتا ہے کہ ملک بھر میں اگر ایک ساتھ انتخابات ہو رہے ہیں تو اس میں کم سے کم مداخلت کے ساتھ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانا ملک کے کچھ حصوں میں ایک اہم چیلنج ہے۔ غرض اگرچہ نئے انتخابات پاکستان کے مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن یہ کوئی علاج نہیں ہیں۔ کسی بھی الیکشن کی کامیابی کا انحصار سکیورٹی، انتخابی سالمیت اور سیاسی رہنماؤں کی مشترکہ بھلائی کے لیے کام کرنے کی خواہش کے عوامل پر ہوتا ہے۔

پاکستان کو اپنے چیلنجوں پر قابو پانے اور مزید مستحکم اور خوشحال مستقبل کی طرف گامزن کرنے کے لیے نہ صرف انتخابات بلکہ تمام سٹیک ہولڈرز کی جانب سے ملک کے بہترین مفاد میں مل کر کام کرنے کے عزم کی ضرورت ہو گی۔ انتخابات ترقی اور جمہوریت کی جانب طویل سفر میں صرف ایک قدم ہیں۔ لیکن اس میں عوام کا سب سے بڑا کردار ہے جو انہوں نے ادا کرنا ہے۔ لیکن بے چارے عوام کیا کریں، ان کے پاس سارے چلے ہوئے کارتوسوں کا آپشن ہے جو ایک دفعہ پھر وہ استعمال کریں گے۔ تو اس سے میرے خیال میں عوام کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔ البتہ کچھ چہرے بدل جائیں گے اور یوں یہ نظام چلتا رہے گا کیونکہ یہاں چہرے بدلتے ہیں، نظام نہیں بدلتا اور نہ ہی یہ نظام اتنی آسانی سے بدل سکتا ہے کیونکہ اس کی جڑیں کافی گہری ہیں جن کو کاٹنا ناممکن ہے بلکہ اس کی تہہ تک پہنچنا بھی ناممکنات میں شامل ہے۔ پھر بھی اگر کسی دوست کو اس سوال کا جواب پتہ ہو کہ کیا نئے انتخابات پاکستان کے مسائل حل کر سکتے ہیں تو براہ کرم مجھے لازمی آگاہ کر دے۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔