کیا حکومت پاکستان طالبان کا غصہ افغان مہاجرین پر نکال رہی ہے؟

'افغانستان پر طالبان مسلط کرنے کے بعد پاکستان کی سکیورٹی سٹیٹ افغانوں کے ساتھ مفتوح لوگوں کی طرح کا سلوک کر رہی ہے۔ افغان مہاجرین اس کا خاص ہدف ہیں۔ آج جو شدید نفرت کا بیج بویا جا رہا ہے وہ دشمنی کو جنم دے گا جس کو آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔ پاک افغان پالیسی کا یہ سیاہ ترین باب ہے'۔

کیا حکومت پاکستان طالبان کا غصہ افغان مہاجرین پر نکال رہی ہے؟

پاکستانی نگران وزیر داخلہ نے کچھ دن قبل ایک پریس کانفرنس میں سکیورٹی وجوہات کو جواز بناتے ہوئے غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو 31 اکتوبر تک پاکستان چھوڑنے کے حکومتی فیصلے سے آگاہ کیا۔ ان کے مطابق دوسری صورت میں ان غیر رجسٹرڈ افغان شہریوں کو ملک بدر کیا جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ رواں سال 24 میں سے 14 خودکش حملے غیر ملکیوں نے کیے ہیں جن کا تعلق افغانستان سے ہے۔ تب سے مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان سا امڈ آیا ہے کہ پاکستان میں بسنے والے افغان مہاجرین کو واپس بھیجنا چاہئیے یا نہیں، اور تب سے ہی افغان مہاجرین میں ملک بدر ہونے کی تشویش لاحق ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں صرف افغان مہاجرین نہیں رہتے بلکہ بنگالی، ایرانی، برمی اور دیگر ممالک کے مہاجرین بھی ہیں۔

حکومت پاکستان کے مطابق ملک بھر میں غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد 17 لاکھ ہے جبکہ حکومت کے مطابق کل مہاجرین کی تعداد 44 لاکھ ہے۔

افغان نگران وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان کی اس پالیسی کا سماجی رابطے کی سائٹ X یعنی سابقہ Twitter پر جواب دیتے ہوئے لکھا کہ افغان شہری پاکستانی سکیورٹی کے مسائل کا سبب نہیں ہیں۔ پاکستان کو اپنے فیصلے پر غور کرنا چاہئیے اور افغان مہاجرین کے ساتھ تحمل کا رویہ رکھنا چاہئیے۔ لیکن پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے جمعرات کو حکومت پاکستان کے اس فیصلے کا دفاع کیا اور کہا کہ تمام غیر قانونی مہاجرین بشمول افغانوں کو پاکستان چھوڑنا چاہئیے اور مزید کہا کہ کوئی بھی ملک غیر قانونی مہاجرین کو رہنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔

مختلف ادوار میں افغان مہاجرین کی پاکستان آمد

ویسے تو افغان مہاجرین 1980 سے مسلسل پاکستان آ رہے ہیں لیکن پھر بھی اس انخلا کو تین مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؛

پہلا مرحلہ 1980 میں جب ثور انقلاب کے بعد سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔ اس وقت تقریباً 40 لاکھ افغان مہاجرین پاکستان ہجرت کر کے آئے۔ آزاد ذرائع کے مطابق اس وقت جنرل ضیاء الحق کہا کرتے تھے کہ یہ مہاجرین ہمارے اسلامی بھائی ہیں اور ان کو پناہ دینا ہمارا دینی فریضہ ہے۔

اس کے بعد 2001 میں 9/11 کے حملوں کے بعد افغان مہاجرین بڑی تعداد میں پاکستان آئے۔ تاہم یاد رہے کہ یہ مہاجرین وقتاً فوقتاً واپس افغانستان بھی گئے۔

افغانستان سے شہریوں کا تیسرا بڑا انخلا 2021 میں تب ہوا جب امریکہ افغانستان چھوڑ کر چلا گیا اور طالبان نے اشرف غنی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس دوران حکومت کے مطابق تقریباً 6 لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے۔

یاد رہے کہ حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کل بسنے والے مہاجرین کی تعداد 44 لاکھ ہے جن میں سے 17 لاکھ مہاجرین کے پاس پاکستان میں رہنے کی کوئی دستاویز یا قانونی جواز موجود نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین  (UNHCR) کے مطابق ان مہاجرین میں سے 52 فیصد خیبر پختونخوا میں، 24 فیصد بلوچستان میں، 14.3 فیصد پنجاب میں، 5.5 فیصد سندھ میں جبکہ 3.1 فیصد اسلام آباد میں رہتے ہیں۔

مہاجرین کو واپس بھیجنے کے آپریشنز اور ان کے نتائج

اگر ماضی پر نظر دوڑائیں تو 2016 میں حکومت پاکستان نے اس طرز کا آپریشن شروع کیا تھا جس کو 2017 اور 2018 میں بھی جاری رکھا گیا۔ UNHCR کے مطابق ان سالوں کے دوران بالترتیب 6 لاکھ، ڈیڑھ لاکھ اور 50 ہزار افغان مہاجرین کو پاکستان سے نکالا گیا۔ اس میں رجسٹرڈ اور نان رجسٹرڈ دونوں طرح کے مہاجرین شامل تھے۔ Human Rights Watch کی ایک رپورٹ نے اسے حالیہ برسوں میں پناہ گزینوں کی دنیا کی سب سے بڑی غیر قانونی جبراً واپسی قرار دیا۔ اس وقت بھی یہی الزامات لگائے گئے تھے کہ افغان مہاجرین دہشت گردی میں ملوث ہیں اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔

تاہم اگر اس آپریشن کا انسانی پہلو دیکھا جائے تو  Human Rights Watchکی ایک رپورٹ کے مطابق اس آپریشن کی وجہ سے افغان مہاجرین کو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جن میں ملک بدری کے خطرات، روزانہ کی بنیاد پر پولیس کی بھتہ خوری جس سے مہاجرین کو ضروریات زندگی پورا کرنا مشکل رہا، پولیس کی بے جا حراست، تشدد اور گھروں پر چھاپے، مہاجرین کے بچوں کو پاکستانی سکولوں سے نکالنا اور مہاجرین کے سکولوں کو بند کرنا شامل ہے۔

افغانستان کی موجودہ صورت حال

طالبان نے اگست 2021 میں اشرف غنی کی حکومت کو ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سے افغانستان کی پہلے سے خراب صورت حال خراب تر ہوتی گئی اور آج کل حالات Human Rights Watch کے مطابق کچھ اس طرح ہیں کہ لڑکیاں پرائمری کے بعد تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں۔ خواتین کی نقل و حرکت، کام کی آزادی، بولنے کی اور اظہار رائے کی آزادی پر مختلف طرز کی قدغنیں لگائی جا چکی ہیں۔ خواتین اپنے گھر کے مرد کے بغیر اکیلے میں سفر نہیں کر سکتیں اور اگر ایسا کریں گی تو خواتین کے ساتھ ساتھ گھر کے مردوں کو بھی سزا دی جائے گی۔ سماجی رابطے کی سائٹ  Xپر حالیہ دنوں میں ایک ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک عورت کو مردوں کے درمیان بٹھا کر کوڑے مارے جاتے ہیں جو کہ انتہائی تکلیف دہ اور ناقابل برداشت عمل ہے اور شاید ہی جدید دنیا میں اس طرح کے سلوک کا کوئی سوچ بھی سکتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل (Amnesty International) کی رپورٹ کے مطابق اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد 97 فیصد لوگ سطح غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جو کہ 2020 میں 47 فیصد تھی۔ اس شدید غربت کی وجہ سے لوگ چھوٹی عمر کی بچیوں کی شادی کرنے اور انسانی اعضا بیچنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ 15 اگست 2021 اور 15 جنوری 2022 کے درمیان 237 لوگوں کا ماورائے عدالت قتل کیا گیا جن میں زیادہ تر تعداد میں سابقہ حکومت (اشرف غنی کی حکومت) کے اہلکار تھے۔ لیکن طالبان حکومت ماورائے عدالتی قتل کے ان اعداد و شمار کو مسترد کرتی ہے۔

اس کے علاوہ Human Rights Watch کے مطابق ISKP (اسلامک سٹیٹ آف خراسان پروونس) بے دردی سے ہزارہ شیعہ کو قتل کر رہی ہے اور طالبان حکومت سکیورٹی فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ صرف 2022 میں 700 ہزارہ شیعہ کو قتل اور زخمی کر دیا گیا جس کی ذمہ داری ISKP قبول کرتی ہے۔

افغان میڈیا پر بھی بہت ساری قدغنیں لگائی گئی ہیں۔ صحافیوں کو ہراساں اور قتل کیا جا رہا ہے۔ سینکڑوں میڈیا گروپ بند کر دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے 80 فیصد خواتین صحافیوں کے ہاتھ سے نوکری چلی گئی ہے۔ عالمی میڈیا پر بھی قدغنیں لگائی گئی ہیں جیسا کہ BBC اور VOA کی مقامی زبانوں (پشتو، ازبک اور دری) کے پروگرامز کو بند کر دیا گیا ہے۔

اگر ان حالات میں کئی لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستان سے نکال کر واپس افغانستان بھیج دیا گیا تو صورت حال کیا ہو گی؟ اس کا جواب افغانستان کے حالات دے رہے ہیں۔ خصوصاً ان مہاجرین کا کیا بنے گا جن کا تعلق سابقہ حکومت سے ہے یا جو صحافی ہیں یا خواتین ہیں یا جو لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں یا حاصل کرنا چاہتی ہیں یا جو گلوکار یا موسیقار ہیں یا طالبان کے ناقد ہیں یا ہزارہ شیعہ جو مہاجر بن کے آئے ہیں۔

افغان مہاجرین کو نکالنے کی اصل وجوہات

بہت سارے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کو نکالنے کی اصل وجہ افغان طالبان کا پاکستان کی بات نہ ماننا ہے۔ کیونکہ افغان طالبان، ٹی ٹی پی کو پاکستان پر سرحد پار سے حملے کرنے سے روک نہیں رہے تو پاکستان افغان طالبان پر دباؤ ڈالنے کیلئے یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ماضی کے اچھے طالبان اور برے طالبان ایک ہو چکے ہیں جس کے نتائج افغان مہاجرین کو بھگتنا پڑ رہے ہیں جو خود طالبان کے قہر سے اپنے گھر بار چھوڑ چھاڑ کر پاکستان آئے ہیں۔

صحافی و تجزیہ کار وسعت اللہ خان کا کہنا ہے کہ 'سرحد پار سے کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں میں حالیہ تیزی کے بعد پاکستانی ریاست کو پھر غصہ آیا ہے اور ہر بار کی طرح یہ غصہ پناہ گزینوں پر ہی نکل رہا ہے'۔

افغان مہاجرین پر پہلے بھی دہشت گردی کے الزامات لگتے تھے اور اب بھی لگ رہے ہیں۔ لیکن اگر یہ مان بھی لیا جائے تو کیا چند لوگ جو دہشت گردی میں مبینہ طور پر ملوث ہیں ان کی وجہ سے تمام افغان مہاجرین قصوروار ثابت ہو گئے؟ اور کیا تمام مہاجرین کو اس کی سزا دی جائے گی؟ پاکستان جو عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کو ختم کرنے کا پرچار کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ چند دہشت گردوں کی وجہ سے تمام مسلمان دہشت گرد نہیں قرار دیے جا سکتے تو چند مہاجرین کے جرم کی سزا تمام مہاجرین کو کس طرح دی جا سکتی ہے؟ اور کیا اس سے نفرت اور عداوت کے جذبات بڑھ نہیں جائیں گے؟

مہاجرین سے متعلق عالمی اور قومی قوانین

پاکستان مہاجرین کے متعلق اقوام متحدہ کے 1951 کے کنونشن برائے مہاجرین اور اس کے 1967 کے پروٹوکول برائے مہاجرین کے دستخط کنندگان میں شامل نہیں ہے جو کہ مہاجرین کی حفاظت کے حوالے سے بہت اہم عالمی معاہدہ ہے۔ اس کے مطابق کسی بھی پناہ گزین کو اس ملک میں زبردستی واپس نہیں بھیجا جائے گا جہاں اس کی زندگی یا آزادی کو خطرہ ہو۔ مزید یہ معاہدہ مہاجرین کو گھر کا حق، تعلیم کا حق اور کام کرنے کا حق دیتا ہے تا کہ پناہ گزین عزت سے آزادانہ زندگی گزار سکیں۔ لیکن عام طور پر پاکستان (UNHCR) کی سفارشات پر کسی بھی نان رجسٹرڈ مہاجر کو رجسٹرڈ مہاجر کا سٹیٹس دے دیتا ہے۔

پاکستان کے شہریت ایکٹ  Citizenship Act 1951کے مطابق جو شخص پاکستان میں پیدا ہوا ہے وہ پاکستانی شہری ہے (سوائے عالمی سفارت کار اور غیر ملکی دشمن کے)۔ اس قانون میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ مہاجرین کے ہاں پیدا ہونے والے بچے مہاجرین تصور کیے جائیں اور ان کو پاکستانی شہری نہیں مانا جائے گا۔ بلکہ 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سعید عابد محمود نامی شخص کو شہریت بھی فراہم کی ہے جو کہ صومالی والدین کے ہاں پاکستان میں پیدا ہوا تھا۔ مزید یہ کہ گذشتہ سال چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ جو شخص پاکستان میں پیدا ہوا ہے وہ پاکستانی قانون کے مطابق پاکستان کا شہری ہے اور قانون اسے شہریت حاصل کرنے کا حق دیتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ کیس 24 سالہ افغان مہاجر فضل حق نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کیا تھا۔ فضل پاکستان میں پیدا ہوئے اور پاکستان میں ہی پلے بڑھے ہیں۔

سیاست دان اور انسانی حقوق کے کارکنان کیا کہتے ہیں؟

افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی پالیسی کو سیاسی رہنما، انسانی حقوق کے کارکنان اور انسانی حقوق کے تحفظ کے اداروں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ افغان پناہ گزینوں کی حمایت جاری رکھے تاک ہ وہ عزت کے ساتھ آزادانہ زندگی گزار سکیں جہاں مہاجرین کو اس بات کا ڈر نہ ہو کہ انہیں واپس افغانستان بھیج دیا جائے گا جہاں ان کو طالبان کے ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس AP کے مطابق ' اقوام متحدہ نے ہفتے کے روز پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ افغان مہاجرین کو زبردستی ملک بدر کرنے سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو سکتی ہیں'۔

این ڈی ایم NDM کے رہنما افراسیاب خٹک کا سماجی رابطے کی سائٹ X پر کہنا ہے کہ 'افغانستان پر طالبان مسلط کرنے کے بعد پاکستان کی سکیورٹی سٹیٹ افغانوں کے ساتھ مفتوح لوگوں کی طرح کا سلوک کر رہی ہے۔ افغان مہاجرین اس کا خاص ہدف ہے۔ آج جو شدید نفرت کا بیج بویا جا رہا ہے وہ دشمنی کو جنم دے گا جس کو آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔ پاک افغان پالیسی کا یہ سیاہ ترین باب ہے'۔

عملی منصوبہ بندی

یہ اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں کہ پاکستان سے مہاجرین کو خصوصاً افغان مہاجرین کو نکالنے کا عندیہ دیا گیا ہو لیکن اگر اس دفعہ حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو آئیے دیکھتے ہیں کہ ایسا کرنے میں کون کون سی ممکنہ مشکلات ہیں جن سے حکومت کو واسطہ پڑ سکتا ہے۔ جیسا کہ پاکستان میں کل بسنے والے مہاجرین کی صحیح تعداد کتنی ہے اور گذشتہ 40 سالوں میں کتنے آئے ہیں اور کتنے واپس گئے ہیں۔ اور جو ابھی موجود ہیں وہ ملک کے کس کس کونے میں ہیں اور کیا کاروبار کر رہے ہیں۔ کتنے ایسے ہیں جن کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ موجود ہے۔ اور اگر مہاجرین واپس نہ جائیں تو کس طرح ملک بدر کیا جائے گا۔ کیا تمام 17 لاکھ نان رجسٹرڈ مہاجرین کو گرفتار کیا جائے گا۔ ان کو ڈی پورٹ کرنے کیلئے ٹرانسپورٹ کے انتظامات اور اخراجات کون دے گا۔ اور اگر افغانستان یا کوئی اور ملک یہ ماننے سے انکار کر دے کہ یہ ہمارے شہری نہیں تو کس طرح ثابت کیا جائے گا کہ یہ متعلقہ ملک کے ہی باشندے ہیں۔ اور افغان مہاجرین جو پاکستان میں پیدا ہوئے مگر ان کے پاس کوئی POR کارڈ نہیں تو کیا ان کو بھی واپس بھیجا جائے گا یا نہیں۔

پاکستان کے موجودہ مسائل اور افغان مہاجرین

پاکستان اس وقت مسائل کے بھنور میں پھنس چکا ہے۔ اگر اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے مسائل کو دیکھا جائے تو وہ تین ہیں؛ سماجی، معاشی اور سکیورٹی مسائل۔

اکثر اوقات افغان مہاجرین کو پاکستانی معیشت پر بوجھ قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر افغان مہاجرین کو ملک سے نکال دیا جائے تو کیا پاکستان کے معاشی مسائل حل ہو جائیں گے؟ اگر پھر بھی مسائل حل نہ ہوئے تو الزام کس پر لگایا جائے گا؟

پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ سیاسی بحران ہے۔ کیا افغان مہاجرین کے انخلا سے پاکستان کا سیاسی بحران حل ہو جائے گا؟

پاکستان کا تیسرا بڑا بحران سکیورٹی کا ہے۔ آئے روز ملک میں خود کش دھماکے ہو رہے ہیں، خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان ان دھماکوں سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ حال ہی میں 12 ربیع الاوّل کو بلوچستان کے شہر مستونگ میں عید میلاد النبیﷺ کے جلوس میں خود کش حملے میں 70 عام شہری ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ نگران وزیر داخلہ کے مطابق رواں سال میں 24 خودکش دھماکوں میں سے 14 افغان شہریوں نے کیے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ دھماکے افغان مہاجرین نے کیے یا خودکش حملہ آور دھماکے کرنے بارڈر پار سے آئے اور دھماکے کر لئے اور اگر ایسا ہے تو اس وقت بارڈر فورسز کیا کر رہی تھیں اور دہشت گردوں کو بارڈر پر روکنا فورسز کا کام ہے یا افغان مہاجرین کا؟ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ باقی 10 خودکش دھماکے کس نے کیے اور ان کو کیا سزا دی جائے گی؟

اگر پاکستان افغان مہاجرین کو دہشت گردی کی وجہ سے نکال بھی دے تو اس کے بعد کیا دہشت گردی کم ہو جائے گی؟ اور کیا ماضی میں ریاست نے خود دہشت گردوں کی سرپرستی نہیں کی اور ملامنصور کوئٹہ میں، اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں اور ملا عمر کراچی کے ہسپتال میں نہیں پائے گئے؟ ان کی وجہ سے پاکستان کو عالمی سطح پر ہزیمت اٹھانی پڑی اور ان کی سرپرستی کرنے والوں کو کیا سزائیں دی گئیں؟

مزید یہ کہ جو پاکستانی کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں ہیں ان کے ساتھ کیا رویہ رکھا جائے گا؟ خطے میں داعش اور القاعدہ جیسی تنظیمیں بھی موجود ہیں ان کے ساتھ کیسے نپٹا جائے گا؟ ولسن سنٹر سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار مائیکل کوگلمین (Michael Kughlman) کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس دہشت گردی کے بڑھتے خطرات سے نمٹنے کیلئے کوئی جامع منصوبہ بندی موجود نہیں۔

مزید یہ کہ حالیہ برسوں میں پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی بڑھی ہے جس کی وجہ سے جڑانوالہ، سیالکوٹ اور دیگر شہروں میں ناخوشگوار واقعات پیش آئے ہیں، اس کا کیا حل نکالا جائے گا؟ صحافی و تجزیہ نگار ندیم فاروق پراچہ کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں اس وقت یہاں سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ ہم ایک ناکام ریاست بننے کے دہانے پر ہیں۔

مہاجرین کو نکالنے سے پہلے پاکستان کو اس بات پر غور کرنا چاہئیے کہ پاکستان کا تاریخی طور پر افغانستان میں کیا کردار رہا ہے اور ہمیشہ کی طرح پاکستان اپنے کیے کا الزام اوروں پر لگا رہا ہے اور ماضی سے نہ سیکھتے ہوئے پھر سے وہی غلطیاں دہرا رہا ہے۔ افغان مہاجرین کا پاکستان کے مسائل میں کوئی کردار نہیں بلکہ پاکستان کے مسائل میں پاکستان کی اپنی ناکام پالیسیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور اس طرح اب اپنے مسائل کو مہاجرین سے جوڑنا مہاجرین کے ساتھ زیادتی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان کے موجودہ مسائل کا حل بہتر معاشی پالیسی بنانے، وقت پر انتخابات کرانے اور مذہبی انتہا پسندی کو کم کرنے میں ہے۔

اجمل جنان نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں صحافت کے طالب علم ہیں۔ انسانی حقوق، تاریخ، ماحولیات اور ایجوکیشن ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ اجمل یوٹیوب پر پوڈکاسٹ بھی کرتے ہیں۔