Get Alerts

ریاظ احمد کا ناول 'شجرِ حیات' فلسفیانہ فکر اور علامت نگاری کا مرقع ہے

ہزاروں سرورق ڈیزائن کرنے والا آرٹسٹ جب لکیروں کو کھینچتے اور ان میں رنگ بھرتے ہوئے ان سے ہم کلام ہوتا تو اس کائنات میں انسان کی ازلی تنہائی اس پر منکشف ہو جاتی۔ 'شجر حیات' نے بہت سارے سوالات کو اٹھایا اور بہت سارے جوابات کو کسی گہرے رمز میں پیش کیا ہے۔

ریاظ احمد کا ناول 'شجرِ حیات' فلسفیانہ فکر اور علامت نگاری کا مرقع ہے

ریاظ احمد کا ناول 'شجر حیات' اب ترکی زبان میں ترجمہ ہو رہا ہے۔ اس ناول کو تخلیق کرنے والے ریاظ احمد کے لیے یہ کوئی پہلا اعزاز نہیں ہو گا۔ انہوں نے کئی اعزازات اپنے نام کر رکھے ہیں۔ ناول یو بی ایل لٹریری ایوارڈ بھی جیت چکا ہے۔ ریاظ احمد اپنوں اور بے گانوں کے دلوں میں بستے ہیں اور دوستوں کے چہروں پر خوشی بن کر بکھر جاتے ہیں۔ ان کی باتیں اور زندگی کے تجربات و مشاہدات بہت انوکھے، بہت منفرد ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ میں ایک انسان دوست ادیب اور فن کار سے ہر لمحہ ہم کلام ہوتا ہوں۔ جدید عہد کے سب سے منفرد اور انوکھے طرز بیان کے حامل ناول کے تخلیق کار لاہور کے ادبی حلقوں میں اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔

قوس قزح سے بھرے آسمان پر ایک نئے سورج کا ظہور، کائنات کا اسرار اور موجود و غیر موجود کی ساحری، الفاظ زندگی کے حسن میں کیسے ڈھلتے ہیں اور رنگ کیسے جذبوں کی زبان بن جاتے ہیں، کوئی دل کو چھونے والا گیت کیسے سُروں میں ڈھلتا ہے، اعلیٰ فن اور سچا فن کار اس کی کہانی سناتے ہیں۔

دھیما پن اور منکسر المزاج، اپنی سوچ، فکر اور نظریے سے غیر مشروط اور اعلانیہ وابستگی کے خمیر میں گندھی ہوئی شخصیت کا نام ریاظ احمد ہے۔ وہ کسی طور بھی استحصالی عناصر کے فکر و فن کو الفاط کے ہیر پھیر اور نثر کے جمالیاتی پیکر میں قبول نہیں کرتے اور اس کا برملا اظہار کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتے۔ ان کا فن ہشت پہلو ہے۔ وہ فلسفے کے طالب علم ہیں۔ تاریخ کا گہرا ادراک رکھتے ہیں البتہ ان کا اولین تعارف ایک مصور اور آرٹسٹ کا ہے۔ انہوں نے کم و بیش 10 ہزار سے زائد سرورق ڈیزائن کیے ہیں اور اپنی افتاد طبع کے خاص انداز کو اس میں اجاگر کیا ہے۔

انہوں نے جب ناول 'شجر حیات' کو لکھنے کا ارادہ کیا تو اسے ایک جدید علامتی اسلوب، گہر ے فلسفیانہ ادراک اور فکر کی روشنی میں لکھا۔ یہ کوئی عام بیانیہ اسلوب نہیں ہے، نہ ہی کسی روایتی اسلوب کے پیراہن میں کرداروں کو پیش کیا گیا ہے۔ ہزاروں سرورق ڈیزائن کرنے والا آرٹسٹ جب لکیروں کو کھینچتے اور ان میں رنگ بھرتے ہوئے ان سے ہم کلام ہوتا تو اس کائنات میں انسان کی ازلی تنہائی اس پر منکشف ہو جاتی۔ 'شجر حیات' نے بہت سارے سوالات کو اٹھایا اور بہت سارے جوابات کو کسی گہرے رمز میں پیش کیا ہے۔ اس ناول کا قاری کوئی عام قاری نہیں ہو سکتا۔ ناول 'شجر حیات' کا آغاز اس انتساب کے ساتھ ہوتا ہے؛ 'اپنی محبوب ماں کے نام جس کی ذات آج بھی مجھ میں زندہ ہے'۔

ناول کا حاشیہ کتاب مقدس کے بیان سے لیا گیا ہے جس کی توجیح مصنف ہی کر سکتے ہیں کہ انہوں نے اس حاشیہ کی ضرورت کیوں محسوس کی ہے۔

موٹروے پر ایک ہولناک حادثہ ہوتا ہے۔ بہزاد اپنے ماں باپ کے ساتھ گاڑی میں اسلام آباد جا رہا تھا۔ وہ خود بچ جاتا ہے جبکہ اس کے ماں باپ حادثے میں جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ ریاظ احمد کا ناول 'شجر حیات' درحقیقت زبان و بیان کے جدید اور نئے اسلوب کا غماز ہے۔ ناول کے تین کردار بہزاد، پروفیسر اور نیلی کا آمنا سامنا 'کہانی باغ' میں ہوتا ہے۔ کہانی باغ کیا ہے؟ 'رنگوں بھرے کہانی باغ میں تمام موسموں کے سب ہی رنگ موجود تھے۔ ہر رنگ کی اپنی اپنی دل کشی تھی، اپنا جادو تھا۔ نیلی آفاقیت، گلابی معصومیت، کاسنی مستی، سرمئی اداسی، سرخ ولولہ، سبھی رنگ اپنی اپنی مثال میں بے نظیر تھے'۔

بہزاد کو کہانی باغ میں ایک شجر کی تصویر بنانا تھی۔ اس نے اس کا نام 'صوفی' رکھا ہوا تھا۔ صوفی بہت ہی پروقار اور فیاض شجر تھا۔ اس کی خوشبو، سایہ اور پھل، پورے باغ کا مشترکہ اثاثہ تھے۔ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود وہ بوڑھا نہیں بزرگ لگتا تھا۔ 'باغ میں ایک اجنبی کی آمد'، 'میں پروفیسر ہوں اور کہانیاں لکھتا ہوں۔ یہ سمجھو کہ تمہاری طرح رنگوں کے بجائے لفظوں سے تصویریں بناتا ہوں'۔ پروفیسر اسے بتاتا ہے۔ 'کائنات کی ہر شے چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی، جان دار ہو یا بے جان، کسی نہ کسی فطری قانون کی پابند ہوتی ہے۔ ان قوانین پر تھوڑا سا تفکر آپ کو پیش گوئی کرنے کے قابل بنا دیتا ہے۔ ہمارے عہد میں خدا بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ انسانوں کی تعداد سے بھی زیادہ، چیونٹیوں اور مچھروں کی تعداد کے برابر۔ ایک ایک آدمی کے دل میں کئی کئی خدا ہیں۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ان کے خداؤں میں جنگ نہ ہو جائے۔ ان کے خداؤں کے پاس انسانوں کی تعداد سے بھی زیادہ اسلحہ ہے۔ اگر یہ جنگ ہو گئی تو یہ عالمی نہیں دنیا کی آخری جنگ ہو گی۔ جس کے بعد نہ انسان رہیں گے اور نہ ہی ان کے بنائے ہوئے یہ خدا۔ انتخاب کرنے کی آزادی انسان کے لیے فطرت کا انمول تحفہ ہے۔ انتخاب کی آزادی سے ہی ہم تقدیر کا سفلی دائرہ توڑ کر اپنے عمل میں آزاد ہونے کا حق حاصل کرتے ہیں۔ زندگی صرف سانس لینے کا نام نہیں، ہمیں نظر آنے والے سب لوگ زندہ نہیں ہوتے۔ دنیا میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو میری طرح سایے بنا دیے گئے ہیں۔ محبت کائنات کی سب سے بڑی دانائی ہے۔ زندگی ہمیشہ اپنے عشاق پر اپنے بھید اور رمزیہ رنگ آشکار کرتی ہے۔ وہ بھید جو انسانی دانش کا عطر ہیں۔ جن سے زندگی معطر ہے۔ رنگوں کے معنی کون مقرر کرتا ہے؟ کالا رنگ تو نہیں جانتا کہ وہ سفید سے کم تر ہے۔ اور نہ سفید جانتا ہے کہ وہ کالے سے کیوں برتر ہے؟ سرخ بہ وقت خطرے، انقلاب اور خوشی کے لیے کیوں مختص ہے؟'

'بہزاد نے تصویر سے نظر ہٹا کر اسے دیکھا، اسے وہ بہت ہی حسین لگی۔ اس کی آنکھوں میں مسحور کن دلکشی اور اپنی جانب کھینچ لینے والی پراسرار سی جاذبیت تھی، بہزاد پر جادو چل گیا تھا، وہ اس کی آنکھوں میں کھو گیا۔ اسے لگا وہ اپنے تخیل کے حسن کو حقیقت کے روپ میں دیکھ رہا ہے۔ اس کا سویا ہوا خواب بیدار ہو گیا ہے۔ اس نے پروفیسر کے الفاظ دہرائے؛ 'لیونارڈو بہت خوش قسمت تھا، اسے مونا لیزا مل گئی۔ اس سے بھی بڑھ کر اس کا کمال، حسن دیکھنے کے تجربے کو مجسم کرنے کا ہنر تھا۔ ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ کوئی فنکار اپنے ہنر کی حد کامیابی سے عبور کر لے۔ اپنے محدود سے نکل کر لامحدود کو چھو لے۔ اس وقت وہ ایک تمثیلی سی کیفیت محسوس کر رہا تھا۔ جیسے وہ زمان و مکاں کی حدود سے آزاد ہو کر اپنے وجود سے باہر نکل آیا ہو۔ جیسے وہ سنبل کا پھول ہو اور ہوا میں اڑ رہا ہو۔ یہ ایسا احساس تھا جسے پانے کے لیے سادھو سنت دریش برسوں مشقیں اور مشقتیں کرتے ہیں۔ اسے یہ تجربہ محبت بھری ایک نظر سے ہو گیا تھا'۔

'نیلوفر (نیلی) کی پیدائش ایک درد بھرے المیے سے ہوئی تھی۔ پیدا ہوتے ہی وہ اپنی ماں کی گود سے محروم ہو گئی تھی۔ اس کی سالگرہ کے دن اس کی ماں کی برسی ہوتی۔ اس لیے وہ اپنی سالگرہ نہیں مناتی تھی۔ نیلی کو وہ آئینہ مل گیا تھا جس میں وہ اپنی ذات کا پورا حسن دیکھ سکے۔ اپنے ہونے کے احساس کو چھو سکے۔ بہزاد کے دیکھنے میں فریفتگی کا ساحرانہ احساس بھرا ہوتا تھا۔ نیلی عام لڑکی نہیں تھی۔ اپنی ہم عمر لڑکیوں سے بہت مختلف تھی۔ بہت سادہ بھی اور ایک معمہ بھی۔ اس کی پرورش بغیر ماں کے ہوئی تھی، جس کی وجہ سے اس کی ذات میں بہت بڑا خالی پن رہ گیا تھا۔ وہ بہت حساس تھی۔ کبھی تو معمولی باتوں کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیتی اور کبھی بڑی بڑی باتوں کو بھی ہوا میں اڑا دیتی'۔

'میں نے اسے آغاز محبت میں کہا تھا۔ سوچ لو نیلی محبت کی جا سکتی ہے، ختم نہیں کی جا سکتی، محبت کو ختم وہی کر سکتے ہیں جنہوں نے محبت کی ہی نہیں ہوتی۔ آج وہ دونوں ایک اکائی بن کر زندگی کے ریشمی خواب کی تعبیر دیکھ رہے تھے۔ انہیں وقت گزرنے کا اندازہ ہی نہیں رہا۔ محبت کا طلسم انہیں وقت کے دائرے سے باہر لے گیا تھا۔ یہ ان کی زندگی میں پہلا دن تھا جب ایک لمحے کو بھی رات نہیں ہوئی تھی'۔

اس ناول کے دو کردار جوزف اور صمدانی محبت کو ناکام کرنے کی سازش کے حوالے سے غور طلب ہیں جو یہ باور کراتے ہیں کہ 'اسباق محبت کے گم گشتہ باب دریافت ہوتے رہیں گے، اور وہ ممکن اور ناممکن سے بے پروا امکان کی انگلی پکڑے ہمیشہ مسکرانے پر اصرار کرتی رہے گی'۔

ناول 'شجر حیات' کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ اس کی تفہیم اور تعبیر کے لیے کئی ایک مضامین اور مباحث ہوئے ہیں۔ اردو میں ناول بہت کم تعداد میں موجود ہیں، ہم انتظار حسین، عبداللہ حسین، قرۃ العین حیدر، شمس الرحمن فاروقی کے شہرہ آفاق ناولوں سے آگاہ ہیں اور ان کا حوالہ ناول نگاری کی ایک بڑی روایت کا تسلسل ہے جبکہ رحیم گل کا 'جنت کی تلاش' سب سے منفرد اور الگ اسلوب اور روایت کی تشکیل نو کرتا ہے، اور کسی شمار قطار میں نہیں رکھا گیا کہ اس کا مصنف دکان دار نقادوں اور ادبی گروہوں سے بہت دور تھا۔ اسلوب کے حوالے سے یہ ریاظ احمد کی ایک جرات مندانہ کاوش ہے کہ انہوں نے روایتی اسلوب سے پہلو تہی اختیار کرتے ہوئے ایک نئے اسلوب میں ناول کی کہانی کو بیان کیا ہے۔

ان کا آئندہ ناول کیا اسی روایت کو آگے بڑھائے گا یا وہ اس کے لیے کسی نئے انداز اور اسلوب کو اپنے طرز بیان کا حصہ بنائیں گے؟ یہ سوال قاری کے ذہن میں فطری طور پر موجزن ہو گا۔ 'شجر حیات' قاری پر سوچ کے کئی در وا کرتا ہے۔ میں 'شجر حیات' کو فلسفیانہ فکر کا حامل اور علامت نگاری کا مرقع اس لیے بھی کہتا ہوں کہ اس ناول کی کہانی کے کردار کسی نہ کسی طور کوئی اور کہانی سناتے ہیں۔

ریاظ احمد پاکستان مزدور پارٹی کے دو سال صدر رہے ہیں۔ صدر انجمن ترقی پسند مصنفین (لاہور) تاحال ہیں، لہٰذا اس ناول کی تخلیق میں ان کی فکری وابستگی کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اس بے در و دیوار 'قفس' کے مکین ہیں جس میں ان کے کروڑوں ہم وطن مقید ہیں اور وہ اس جدوجہد کے امین ہیں جس کی مشعل حسن ناصر، فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، حمید اختر، کرشن چندر، منٹو، بیدی اور عصمت سے ہوتی ہوئی ریاظ احمد تک پہنچی ہے۔ وہ جب تصور سے تصویر کینوس پر اتارتے ہیں کہ ان کا فن کہانی کی صورت ہو یا کسی شاہکار مصوری کی شکل میں تو ہمیشہ وہ اس کیفیت میں ہوتے ہیں جوایک ترقی پسند اور روشن خیال نظریے کی غماز ہوتی ہے۔ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ابھی اس کا ایک ورق تمام ہوا ہے جبکہ کئی اوراق باقی ہیں۔

طاہر اصغر مصنف و صحافی ہیں ان کی دلچسپی کے موضوعات پروفائل اور آپ بیتی لکھنا ہے۔ وہ جالب بیتی اور منٹو فن و شخصیت کی کہانی کے مصنف ہیں۔ زیر طبع ناول ’’قصہ غوغا غٹرغوں‘‘ ہے ۔موسیقی اور ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔