فوج سیاست چھوڑے اور میانوالی ایئر بیس جیسے حملوں کو روکے

بہت سے لوگ شاید اس حملے کو پاکستان کی جانب سے 17 لاکھ افغان مہاجرین کو بے دخل کرنے کے حالیہ فیصلے کے ردعمل کے طور پر دیکھیں گے۔ یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے کیونکہ افغان مہاجرین کی ملک بدری سے طالبان پر بوجھ بڑھے گا۔ لیکن یہ معاملہ محض ردعمل تک محدود نہیں ہے۔

فوج سیاست چھوڑے اور میانوالی ایئر بیس جیسے حملوں کو روکے

پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھ رہی تھی کہ اس نے دہشت گردی کے خطرے سے جان چھڑوا لی ہے۔ لیکن 3 نومبر کے واقعے نے ثابت کیا کہ وہ غلط تھے۔ پنجاب کے شہر میانوالی میں ایم ایم عالم ایئر بیس پر حملے نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ عسکریت پسندوں نے پاکستان ایئر فورس کے تربیتی مرکز جیسے نسبتاً مشکل ہدف پر قبضہ کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف کئی بڑے آپریشن کرنے کے بعد، جن میں سے آخری 2017 میں ہونے والا ردالفساد تھا، پاک فوج نے دعویٰ کیا کہ اس نے ملک کو دہشت گردی سے پاک کر دیا ہے۔

جو لوگ اس دعوے سے متفق نہیں تھے، انہوں نے بھی یہ نہیں سوچا ہو گا کہ دہشت گرد پنجاب میں، جسے عام طور پر محفوظ علاقہ سمجھا جاتا ہے، ایک مشکل ہدف پر حملہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اب تشویش کی بات یہ ہے کہ میانوالی حملہ پنجاب میں دہشت گردی کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اس حملے کے بعد حکمران اسٹیبلشمنٹ کو نیند سے بیدار ہونا پڑے گا اور اس سے ملک کو درپیش دہشت گردی کا خطرہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ یہ حملہ پاکستان کے لیے ایک اور اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کی اتحادی تنظیم تحریک جہاد پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان اور اس کے مختلف اتحادیوں نے پاکستان میں آسان اور مشکل دونوں قسم کے اہداف پر حملے کیے ہیں، جن میں 2009 میں آرمی جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو)، 2011 میں مہران نیول ایئر بیس، 2012 میں منہاس ایئر بیس اور 2015 میں بڈھ بیر نان فلائنگ ایئربیس پر حملے شامل ہیں۔ تازہ ترین حملہ اس بات کا مظہر ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے کو وقتی طور پر قالین کے نیچے سرکا دیا گیا تھا اور دہشت گرد عناصر کو جونہی موقع ملا انہوں نے پھر سے حملہ کر دیا ہے۔

طالبان کا معاملہ

بہت سے لوگ شاید اس حملے کو پاکستان کی جانب سے 17 لاکھ افغان مہاجرین کو بے دخل کرنے کے حالیہ فیصلے کے ردعمل کے طور پر دیکھیں گے۔ یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے کیونکہ افغان مہاجرین کی ملک بدری سے طالبان پر بوجھ بڑھے گا۔ لیکن یہ معاملہ محض ردعمل تک محدود نہیں ہے۔ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور افغان طالبان کے مابین رابطہ اب بھی ٹوٹا نہیں ہے۔ متعدد سرکردہ افغان رہنماؤں کے خاندان اس وقت بھی پاکستان میں مقیم ہیں۔

طالبان کا دوبارہ ابھر کر آنا لازم تھا اور یہ طالبان کے کابل پر قبضے کا فطری نتیجہ ہے جو 2020 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے کے بعد ممکن ہوا تھا۔ افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی نے فطری طور پر ان کے تمام اتحادی گروہوں کا حوصلہ بڑھایا کہ وہ پھر سے کارروائیاں شروع کریں۔ اس حوالے سے پاکستان ان کے لیے یقیناً پسندیدہ ہدف ہے۔ افغانستان اور طالبان سے متعلق گہری معلومات رکھنے والے ایک ذریعے نے مجھے بتایا کہ افغانستان میں متعدد طالبان جنگجوؤں کے ساتھ ان کی بات چیت سے یہ ظاہر ہوا کہ پاکستان کو نشانہ بنانے میں طالبان گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس ذریعے نے مزید دعویٰ کیا کہ طالبان کا منصوبہ یہ ہے کہ وسطی ایشیا کا رخ کرنے سے پہلے وہ پاکستان میں کارروائیوں کو بڑھانا چاہتے ہیں۔

تاہم اس سے بھی بڑا مسئلہ پاکستان کی جانب سے طالبان کو 'اچھے' اور 'برے' طالبان میں تقسیم کرنے والی سوچ ہے۔ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ یہ انتہا پسند دہشت گرد پاکستان کے ریاستی اداروں اور معاشرے دونوں میں گھس چکے ہیں۔ پاکستان میں متعدد ذرائع سے گفتگو کے دوران مجھے وہ چھوٹ یاد آئی جو خاص طور پر وزیر اعظم عمران خان کے دور میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی سربراہی میں آئی ایس آئی نے تحریک طالبان پاکستان کو دی تھی۔ 2018 کے بعد عمران خان حکومت نے ایک پرجوش منصوبے کا آغاز کیا جس کے تحت ناراض طالبان کو تخفیف اسلحہ، ڈی موبلائزیشن اور ری انٹیگریشن (DDR) فارمولے کے تحت منانے کی کوشش کی گئی۔ آئی ایس آئی کو یہ خیال 2014/16 میں سوجھا تھا جب لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر اس کے سربراہ تھے۔ جنرل رضوان اختر نے عسکریت پسندوں کو گرفتار کرنے، سزا دینے یا ختم کرنے کے بجائے ڈی ڈی آر کا پرجوش مگر متنازعہ منصوبہ تجویز کیا تھا۔

فوجی استعداد

ذرائع کا کہنا ہے کہ میانوالی میں جن 7 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق 'کچے' کے علاقے سے تھا جو کہ جنوبی پنجاب اور سندھ کی قبائلی پٹی ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں کئی عسکریت پسندوں کو یہاں ٹھہرایا گیا تھا۔ عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ جب پنجاب پولیس نے ابتدا میں انہیں لاہور سے گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی تو عمران خان نے انہی عسکریت پسندوں کو اپنے تحفظ کے لیے استعمال کیا تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی ایجنسیز تک ان عسکریت پسندوں کی رسائی ایک ایسا مسئلہ ہے جو کبھی بھی پوری طرح سے حل نہیں ہوا۔ سکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں اور مختلف عسکریت پسند گروہوں کو الگ کرنے کے حوالے سے ملک میں سویلین حکام یا عام لوگوں کو کبھی بھی تسلی بخش اور قابل اعتماد جواب نہیں دیا گیا۔

حالیہ حملے میں بھی اہلکاروں اور انفراسٹرکچر دونوں لحاظ سے ایئربیس پر ہونے والے نقصانات اور بیس کے اردگرد سکیورٹی کی صورت حال کو جاننے سے اہم نتائج پر پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ اڈہ کوئی بڑا مرکز نہیں تھا کیونکہ اس میں بنیادی طور پر چینی قراقرم-8 اور پاکستانی سپر مشاق تربیتی طیارے موجود تھے۔ لیکن اخباری رپورٹس اور آئی ایس پی آر کے بیان، جس میں تین فیز آؤٹ طیاروں کو پہنچنے والے نقصان کا ذکر کیا گیا ہے، سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ پرانے چینی F-7 طیارے بھی وہاں کھڑے کیے گئے ہوں گے۔ جن ذرائع سے میں نے بات کی، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان ایئر فورس اور آئی ایس پی آر درست معلومات کو چھپا رہے ہیں جبکہ اصل نقصان یہ ہے کہ 14 طیارے اور 35 فوجی جوان اس حملے میں نشانہ بنے ہیں۔ ان اعداد و شمار سے عسکریت پسندوں کی صلاحیت کا پتہ چلتا ہے۔ ان اڈوں کو محفوظ بنانے کے لیے صلاحیت کو بڑھانے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں، جن میں گارڈز کو نائٹ وژن ڈیوائسز دینے، تھرمل امیجنگ سائٹس اور بہتر آلات سے لیس کرنے کا مطالبہ ہو رہا ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ فوج کو سیاست اور معیشت کو سنبھالنے کے بجائے اپنی توجہ سکیورٹی کے معاملات کی جانب مبذول کرنی چاہئیے۔ افغان مہاجرین کو ملک سے بے دخل کرنے سے دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ جو چیز یقینی طور پر مددگار ثابت ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ آرمی چیف سکیورٹی کے معاملات پر زیادہ توجہ دیں، کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے سامنے کئی مسائل کا ڈھیر لگا دیا ہے۔ اپنی مہارت کے واحد شعبے کے تحت آنے والے معاملات پر پوری توجہ دینے کے بجائے وہ مکمل طور پر پاکستان میں روزمرہ کی حکمرانی کو سنبھالنے میں مگن ہیں۔

**

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا یہ مضمون ہندوستانی ڈیجیٹل اخبار The Print میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لیے اردو ترجمہ کیا گیا ہے۔