’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا خط میں وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کا ذکر کرنا کسی صورت درست نہیں‘

’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا خط میں وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کا ذکر کرنا کسی صورت درست نہیں‘
سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے الزامات مسترد کردیئے، سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا۔ چیئرمین کونسل، ممبران اور سیکریٹری پر الزامات مسترد کردیئے گئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کی سماعت سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل پر جانبداری کے الزامات عائد کئے تھے، جس پر سپریم کورٹ نے کونسل سے جواب مانگا تھا، عدالت عظمیٰ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کی سماعت کل (منگل کو) کرے گی۔


سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے جواب میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ کسی بھی جج کیخلاف صدارتی ریفرنس کی انکوائری کرنا کونسل کی آئینی ذمہ داری ہے، چیئرمین کونسل، ممبران اور سیکریٹری پر عائد الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں؛ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سازش کا حصہ بننے والے وزیراعظم کا حال ریاض حنیف راہی والا ہوگا

ایس جے سی کا مزید کہنا ہے کہ صدارتی ریفرنس پر کونسل کی کارروائی غیر جانبدارانہ اور تعصب سے پاک ہے، عدلیہ کی آزادی اور عدلیہ کا احتساب ایک سکے کے دو رخ ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے جواب میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ آرٹیکل 5، کوڈ آف کنڈکٹ اور ججز حلف کے تحت صدارتی ریفرنس پر کارروائی کرنا لازم ہے، سپریم جوڈیشل کونسل عدلیہ کے وقار کیلئے شکایت پر جج کے کنڈکٹ کا جائزہ لیتی ہے۔

اس سے قبل 19 اگست 2019ء کو سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کيخلاف صدر کو خط لکھنے پر ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی سے متعلق دائر ریفرنس خارج کرديا تھا، کونسل کا اپنے فيصلے ميں کہنا تھا کہ شکايت کنندہ کے خط کے مندرجات ایسے نہیں کہ جج کو عہدے سے ہٹایا جاسکے۔

تحریری فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اپنے خلاف ریفرنس اور اس کے مندرجات کا بخوبی علم تھا، خط میں وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کا ذکر کرنا کسی صورت درست نہیں۔

قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں کیا لکھا تھا ؟

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف ریفرنس دائر ہونے کی تفصیلات جاننے کے لیے صدرِ پاکستان کے نام ایک خط لکھا تھا ، جس میں انھوں نے سوال اٹھایا  کہ آیا وزیرِ اعظم عمران خان کے نزدیک اپنے خاندان والوں کے اثاثوں کی تفصیلات جمع کروانا لازم ہے۔


پانچ صفحات پر مشتمل اس تفصیلی خط میں جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے پہلے خط کا حوالہ دیتے ہوئے صدر عارف علوی سے کہا  کہ ان کی اور وزیراعظم کی جانب سے اب تک کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف ریفرنس کی کاپی فراہم کی گئی ہے۔

اپنے خط میں انھوں نے یہ بھی کہا  کہ انھییں خبروں کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ ان کے خلاف ریفرنس وزیرِاعظم کے مشورے پر بھیجا گیا ہے اور انھوں نے کہا ’تو کیا میں یہ سمجھوں کے محترم وزیرِاعظم نے بھی اپنی بیویوں اور بچوں کے تمام اثاثے اپنے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کیے ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ یقیناً اس بِنا پر میرے خلاف ریفرنس آپ کو نہ بھیجتے۔‘

وزیرِاعظم سے موازنہ


اپنے خط میں سپریم کورٹ کے جسٹس نے صدر سے یہ بھی پوچھا کہ ’کیا اس بات کی جانچ کی گئی کہ وزیر اعظم نے اپنی بیویوں اور بچوں کے اثاثہ جات گوشواروں میں ظاہر کیے؟‘

انھوں نے صدر سے کہا  کہ ’کیا آپ وزیر اعظم سے کہیں گے کہ وہ اپنے گوشوارے مجھے فراہم کریں جن میں انھوں نے اپنے اہل خانہ کی بیرون ملک جائیدادوں کی تفصیلات دی ہوں؟‘

جسٹس فائز عیسیٰ نے لکھا  ’میں پاکستان کے ٹیکس قوانین پر مکمل طور پر عمل کرتا ہوں، ان جائیدادوں بارے مجھے کبھی کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔ نہ ہی میری بیوی اور بچوں کی جائیدادوں بارے کوئی نوٹس موصول ہوا۔‘ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’مجھ پر کوئی حکومتی ٹیکس واجب الادا نہیں ہے۔‘

خط کے آخر میں انھوں نے کہا کہ ’جب آئینی ڈھانچے کی بار بار خلاف ورزی ہوتی ہے تو جمہوریت آٹوکریسی (یعنی استبدادی نظامِ حکومت) کی طرف کھسکنا شروع ہو جاتی ہے اور عوامی حکومت بھی عامریت پسند بن جاتی ہے۔‘