مہذب معاشرہ میں بدعنوانی کسی بھی قسم کی ہو، اسے بےایمانی اور مجرمانہ جرم ہی سمجھا جاتا ہے۔ کوئی فرد یا تنظیم اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے اپنے ذاتی مفادات کے لئے فائدہ حاصل کرے اسے بدعنوانی یا عرف عام میں کرپشن سمجھا جاتا ہے۔
بدعنوانی میں غبن، رشوت، اقربا پروری، اسمگلنگ، بھتہ خوری، کرپشن، کک بیکس، دھوکہ دہی، فراڈ ، عوامی دولت کا غلط استعمال، غیر قانونی کاروباری لین دین، اسٹاک ہیرا پھیری اور ریل اسٹیٹ کی دھوکہ دہی جیسی متعدد سرگرمیاں شامل ہیں۔ رشوت کی مذمت اور اس کے لینے اور دینے والوں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سخت وعیدیں بتائی ہیں،حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”رشوت لینے اور دینے والے پراللہ کی لعنت برستی ہے“۔(رواہ ابن ماجہ)
ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ”رشوت لینے اور دینے والا دونوں ہی دوزخ میں جائیں گے“۔ (طبرانی)
سیاسی بدعنوانی اس وقت ہوتی ہے، جب ایک عوامی عہدہ یا دفتر رکھنے والا یا دیگر سرکاری ملازم ذاتی فائدے کے لئے سرکاری صلاحیت میں کام کرتا ہے۔ کلپٹوکریسی kleptocracies، اولیگارکیز oligarchies ، نارکو اسٹیٹس narco-states اور مافیا mafia ریاستوں میں بدعنوانی سب سے عام ہے.
کلپٹوکریسی ایسا نظام حکومت جہاں کے منتخب لوگ بدعنوان ہوتے ہیں اور اپنی طاقت کے ناجائز استعمال سے اپنی دولت اور کاروبار میں بے دریغ اضافہ کرتے ہیں۔
اولیگارکیز میں طاقت کا منبع چند ایک لوگوں کے پاس ہوتا ہے اور وہ اسکا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔
نارکو اسٹیٹس میں منشیات کا کام غیرقانونی طور پر بڑے اہتمام سے حکومت کی زیر نگرانی کیا جاتا ہے۔
مافیا ریاست میں ریاستی سرپرستی میں ہر غیر قانونی کام کو ناصرف کیا جاتا ہے، بلکہ قانون پر عملدرآمد نا کرکے اس کو قانونی تحفظ بھی دیا جاتا ہے۔
الحمدللہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اوپر بیان کی گئیں تمام خوبیاں موجود ہیں، جن میں کمی بیشی تھی، 73 سال بعد ان میں بھی ہم اب خود کفیل ہو گئے ہیں۔ کلپٹوکریسی کی بنیاد انگریز بہادر رکھ گئے تھے، رہی سہی کسر بار بار کی فوجی مداخلت نے پوری کر دی، لیکن اس عمل کو باقاعدہ فن کی شکل میں مرد مومن مرد حق ضیاء الحق صاحب نے متعارف کروایا۔
اولیگارکیز کا تمام سہرا جناب ایوب خان کو جاتا ہے، جنھوں نے ملک میں 22 خاندانوں کو اتنی جلا بخشی کہ اب تک ہم اس اثر سے باہر نہیں نکل سکے۔ نارکو اسٹیٹ کا سہرا جناب ضیاء الحق اور انکے رفقاء نے ہاتھ سے نہیں جانے دیا، کیونکہ وہ چاہتے تھے چپڑی ہوں اور وہ بھی دو دو، اس لئے افغان جہاد کے بعد ہمارے ملک میں نشہ کا دور دورا ہو گیا۔ مافیا کے قیام کا سہرا جناب جنرل مشرف کے سر ہے، انھوں نے دن رات اور انتھک محنت کے بعد اس کی تنظیم سازی میں کردار ادا کیا، متحدہ قومی موومنٹ، وکلا مافیا، ذرائع ابلاغ مافیا، چینی و آٹا مافیا وغیرہ وغیرہ تمام ان کی کامیابیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کو بھی ان ہی میں سے کسی بدعنوان طریقہ سے پروان چڑھایا گیا تا کہ وہ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو سکھیں اور طہارت حاصل کر سکیں۔
چھوٹی چھوٹی سطح پر چھوٹی چھوٹی بدعنوانی واقع ہوتی ہے، جب عوامی عہدیدار، عوامی خدمت کے لئے عوامی اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ، بہت ساری چھوٹی جگہوں جیسے رجسٹریشن کے دفاتر ، پولیس اسٹیشنز، لینڈ ریونیو، اسٹیٹ لائسنسنگ بورڈ ، اور بہت سے دوسرے نجی اور سرکاری شعبے میں لوگوں کے لئے سفارش کرنا شامل ہے۔
عظیم الشان بدعنوانی یا گرینڈ کرپشن کو اس طرح سے بدعنوانی سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ حکومتی سطح پر ہونے والی بدعنوانی میں سیاسی ، قانونی اور معاشی نظام کو پامال کیا جائے۔ ایسی بدعنوانی عام طور پر ایسے ممالک میں پائی جاتی ہے، جن میں آمریت یا نیم جمہوری حکومتیں ہیں۔ لیکن ان ممالک میں بدعنوانی کی مناسب پولیسنگ نہیں کی جاتی ہے، یہاں ہر شخص کو صرف سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
نظامی بدعنوانی (یا مقامی بدعنوانی) وہ بدعنوانی ہے جو بنیادی طور پر کسی تنظیم یا عمل کی کمزوریوں کی وجہ سے ہے۔ اس کا انفرادی عہدیداروں یا ایجنٹوں سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے، جو نظام کے اندر بدعنوانی کرتے ہیں۔ نظام عظمی کی بدعنوانی کے عوامل میں متضاد مراعات، صوابدیدی طاقتیں، اجارہ داری، شفافیت کی کمی، کم تنخواہ، اور استثنیٰ کی ثقافت شامل ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر کرپشن کی مساوات کچھ اس طرح ہے جسے ڈگری کی صورت میں ماپا جاتا ہے:
کرپشن کی ڈگری = اجارہ داری + صوابدید + شفافیت + اخلاقیات
اجارہ داری اس ملک میں انھی کی قائم ہے، جو انگریز بہادر کے سپاہی تھے اور ان کے وفادار، صوابدیدی اختیارات میں وقت کیساتھ کمی نہیں کی گئی، جو اختیارات صاحب بہادر کے پاس تھے، وہی چلتے آ رہے ہیں۔ شفافیت کا دارومدار اخلاقیات پر ہوتا ہے، اور 73 سال میں ہم نے جتنی اخلاقی گراوٹ میں ترقی کی ہے اس کے بعد تو آخری دو عوامل تو زیر غور لائے ہی نہیں جا سکتے۔
2017 کے سروے کے ایک مطالعہ کے مطابق ، درج ذیل عوامل کو بدعنوانی کی وجوہات سے منسوب کیا گیا ہے:
1۔ پیسوں، خواہشات کا لالچ۔
2۔ مارکیٹ اور سیاسی اجارہ داری کی اعلی سطحیں
3۔ جمہوریت کی نچلی سطح ، کمزور شہری شرکت اور کم سیاسی شفافیت
4۔ بیوروکریسی کی اعلی سطحی اور غیر فعال انتظامی ڈھانچے
5۔ کم پریس کی آزادی
6۔ کم معاشی آزادی
7۔ بڑی نسلی تقسیم اور اعلی سطح پر گروپ پسندی
8۔ صنفی عدم مساوات
9۔ غربت
10۔ سیاسی عدم استحکام
11۔ کمزور املاک کے حقوق
12۔ بدعنوان پڑوسی ممالک سے وابستہ
13۔ تعلیم کی کم سطح
14۔ معاشرے سے وابستگی کا فقدان
15۔ اسراف خاندان
نچلی سطح کے میکانزم کی تشکیل ، شہریوں کی شرکت کو فروغ دینا اور سالمیت، احتساب اور شفافیت کی اقدار کی حوصلہ افزائی کرنا بدعنوانی کے خلاف جنگ کے اہم جز ہیں۔
پاکستان میں بدعنوانی پھیلی ہوئی ہے، خاص کر حکومت اور پولیس فورس کی نچلی سطح پر۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے 2017 کرپشن پریسپیشن انڈیکس میں 180 ممالک میں سے 117 ویں نمبر پر ہے پاکستان نے 2013 میں اپنے اعدادوشمار میں نمایاں بہتری دیکھی جب اس کی درجہ بندی میں اس کی پچھلی درجہ بندی کے مقابلے میں 12 اشاریہ میں اضافہ ہوا- 2012 میں 174 میں سے 139 ،2011 میں 182 میں سے 134، 2010 میں 178 میں سے 143، اور 2009 میں 180 میں سے 139۔
پاکستان کے وجود میں آنے سے 1947 میں کرپشن کا مسئلہ درپیش ہے۔ فوجی اور سویلین اداروں کے مابین تین مختلف کامیاب بغاوتوں کی وجہ سے حکومتوں میں تبدیلی نے اینٹی کرپشن اداروں کو بھی کمزور کردیا ہے۔ اس بات پر بھی غور کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی میں نمایاں بہتری سویلین حکومت میں یا فوجی حکومت میں نہیں واقع ہوئی ہے۔
2017 میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کو بدعنوانی کے الزامات عائد کرنے کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے تاحیات نااہل قرار دے دیا تھا۔ اعلی عدالت میں اس کی بدعنوانی سے متعلق مقدمات ابھی جاری ہیں، لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے ہیں۔
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نظام اتنا فرسودہ ہے کہ نتائج دینے کے قابل نہیں رہا۔ ریاستی حکومت کے اندر اعلی سطح پر بلا تفریق احتساب اور انسداد بدعنوانی کی پالیسیوں میں اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ ملک میں مقدس اب وہی ہے جسے موقع نہیں ملا۔