آخر کار پانچ سال کے طویل انتظار کے بعد سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار وطن واپس لوٹ آئے۔ اسحاق ڈار کے بیرون ملک جانے اور واپسی میں کئی کہانیاں پنہاں ہیں۔ یہ بات تو سیاست میں تھوڑی بہت دلچسپی رکھنے والے ہر شخص پر 2011 میں ہی واضح ہو چکی تھی کہ ہمارے 'مہربانوں' کا موڈ کیا ہے۔ مینار پاکستان پر عمران خان کا جلسہ جن مہربانوں نے کروایا وہ سب پر واضح ہو چکا ہے۔ اس کے بعد کراچی، پشاور اور کوئٹہ کے جلسے کرائے گئے اور تبدیلی کے نام پر کروڑوں روپے استعمال کیے گئے لیکن 2013 کے انتخابات میں یہ بات ہمارے مہربانوں پر واضح ہو گئی کہ عوام اس تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اپنی اس ناکامی کے بعد مہربانوں کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ عوامی طاقت دوسری طرف ہے لہٰذا 2018 کے انتخابات کو ہدف بنایا گیا۔
2013 میں انتخابات جیتنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ایک ایسا پاکستان ملا جہاں آئے روز خود کش دھماکے ہو رہے تھے جس میں انسانوں اور املاک کا شدید نقصان ہو رہا تھا۔ ملک میں طویل لوڈشیڈنگ سے کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا۔ گیس کی کم یابی کی وجہ سے پٹرول پمپس پر رات سے لائینیں لگی ہوتی تھیں۔ خزانہ خالی تھا اور ضروری اشیا خریدنے کے لیے پیسہ نہیں تھا۔
ان حالات میں مسلم لیگ (ن) نے اقتدار سنبھالتے ہی چین کیساتھ معاہدہ کر کے سی پیک پر کام کو تیزی سے آگے بڑھایا۔ قیام پاکستان سے لے کر 2013 تک کل 13 ہزار میگا واٹ بجلی کے کارخانے لگے تھے جبکہ مسلم لیگ کے پانچ سالہ دور حکومت میں 11 ہزار میگاواٹ کے کارخانے لگائے گئے۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں موٹرویز کا جال بچھایا گیا۔ کراچی سمیت پورے ملک میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا اور ملک کو اس عفریت سے نجات ملی۔ سی پیک منصوبوں کی وجہ سے لوگوں کو روزگار ملا اور ثمرات آنا شروع ہوئے یہاں تک کہ 2018 تک ملکی ترقی کی شرح 5.8 تک پہنچ گئی۔
اسحاق ڈار کی شبانہ روز کوششوں اور ترقی کی رفتار دیکھ کر عالمی ادارے یہ پیش گوئی کرنے لگے کہ اگر پاکستان اسی رفتار سے ترقی کرتا رہا تو بہت جلد جی 20 میں شامل ہو جائے گا۔ ڈار صاحب کا کہنا ہے کہ مہربان لوگ آئے روز آ کر پیسہ مانگتے تھے اور جب میں ان سے پوچھتا تھا کہ پہلے جو پیسے دیے وہ کہاں خرچ ہوئے تو ناراض ہو جاتے تھے۔ یہیں سے اسحاق ڈار کے خلاف سازشیں شروع ہوئیں اور آخرکار تنگ آ کر انہیں ملک سے جانا پڑا۔
2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اس طرح انتخابی میدان میں اتری کہ اس کا قائد نواز شریف، مریم نواز اور حنیف عباسی عدالتی فیصلوں کے تحت نااہل قرار دیے جا چکے تھے۔ انتخابات میں تمام تر دھاندلی کے باوجود عمران خان کو کامیابی نہیں مل رہی تھی تو آر ٹی ایس بٹھایا گیا۔ پھر بھی مطلوبہ نتائج نہیں ملے تو دوسری پارٹیوں کو مجبور کر کے پی ٹی آئی کی حکومت بنوا دی گئی۔
پی ٹی آئی کے پونے 4 سالہ دور میں نہ صرف ملکی معیشت تباہ ہوئی بلکہ عالمی برادری میں ملک تنہائی کا شکار ہو گیا تو مہربانوں کو پھر اسی شخص کی یاد آئی جسے جبری طور پر اقتدار سے باہر کیا گیا تھا۔ نواز شریف آج پھر مرکز توجہ ہیں۔ اسحاق ڈار کے ملک میں آنے کی خبر سنتے ہی ڈالر کو ریورس گیئر لگ چکا ہے۔ یہی پی ٹی آئی کی پریشانی ہے کہ اگر اسحاق ڈار نے ڈالر کو قابو کر لیا تو اس کے نتیجے میں مہنگائی بھی کم ہو جائے گی اور اس کے بعد عمران خان کے پاس بیچنے کے لیے کوئی منجن نہیں رہ جائے گا۔ پی ٹی آئی کو مزید خطرہ اس بات سے ہے کہ مریم نواز کی نااہلی ختم ہو چکی ہے اور نواز شریف کی جلد واپسی کے بعد ان کی نااہلی بھی ختم ہو جائے گی۔ ایسی صورت میں عمران خان کے لیے سیاسی میدان تنگ ہو جائے گا۔
آخر میں یہ بات نوٹ کر لیں کہ بہت جلد عمران خان نا اہل ہو جائیں گے اور خدشہ ہے کہ پی ٹی آئی بھی متحدہ قومی موومنٹ کی طرح ٹکڑوں میں بٹ جائے گی۔