آئین، قانون اور انصاف کا مذاق اڑانا صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے

باجوہ ڈاکٹرائن کے بعد قوم تک عاصم ڈاکٹرائن کے اثرات پہنچ رہے ہیں۔ ہماری ہئیت مقتدرہ اور سپہ سالار کے من پسند نعرے 'پہلے احتساب، پھر انتخاب' کی گونج پھر سے وطن عزیز کی فضاؤں میں سنائی دے رہی ہے۔ کیا کسی قانون پسند معاشرے میں یہ سب ہو سکتا ہے؟ کیا ایک سرکاری ملازم یہ کہہ سکتا ہے کہ سب سیاسی جماعتوں میں محب وطن افراد نہیں ہیں؟

آئین، قانون اور انصاف کا مذاق اڑانا صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے

ایک بات تو طے ہے کہ جو پوری دنیا میں نہیں ہو سکتا، وہ وطن عزیز میں ہو جاتا ہے۔ ایک لمحے کو تصور کریں کہ کسی ملک کا سپہ سالار تاجروں کے ساتھ اعلانیہ ملاقاتیں کرتا ہے، ملکی معیشت پر اظہار خیال کرتا ہے، اس کو درست سمت پر لانے کی کوشش کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرمان جاری کر دیتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت محب وطن نہیں ہے۔ اگر کسی مہذب معاشرے میں یہ سب ہو تو اس ملک کے سپہ سالار کو فوری طور پر مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا جائے۔ اگر وہ انکار کرے تو ملک کا وزیر اعظم یا صدر اس کو عہدے سے برطرف کر دے مگر افسوس کہ ہمارے ملک میں یہ سب دھڑلے سے کیا جا رہا ہے۔

جب پرویز مشرف صدر پاکستان تھا تب وہ ساتھ میں سپہ سالار بھی تھا۔ وہ اعلانیہ تاجروں اور سرمایہ کاروں کے وفود سے ملا کرتا تھا۔ اس کے بعد آنے والے جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف صرف سپہ سالار تھے مگر مبینہ طور پر غیر اعلانیہ طور پر تاجروں کے وفود سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ ان کو باری باری جی ایچ کیو بلایا کرتے تھے مگر پھر جنرل باجوہ اور جنرل عاصم منیر نے تو کھلم کھلا تاجروں سے اعلانیہ ملاقاتیں ان کے پاس جا کر شروع کر دی ہیں اور بتایا ہے کہ چونکہ چھڑی میرے میں ہاتھ ہے اس لیے جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے محاروے پر ہی عمل درآمد ہو گا۔

یہ سب کچھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہو رہا ہے، میڈیا میں رپورٹ ہو رہا ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جو کچھ اس ملک میں مبینہ طور پر آپریشن رجیم چینج کے ذریعے جنرل باجوہ اور ان کے سہولت کار کر گئے، وہی سب کچھ اب تک چل رہا ہے۔ باجوہ ڈاکٹرائن کے بعد قوم تک عاصم ڈاکٹرائن کے اثرات پہنچ رہے ہیں۔ ہماری ہئیت مقتدرہ اور سپہ سالار کے من پسند نعرے 'پہلے احتساب، پھر انتخاب' کی گونج پھر سے وطن عزیز کی فضاؤں میں سنائی دے رہی ہے۔ کیا کسی قانون پسند معاشرے میں یہ سب ہو سکتا ہے؟ کیا ایک سرکاری ملازم یہ کہہ سکتا ہے کہ سب سیاسی جماعتوں میں محب وطن افراد نہیں ہیں؟ یہ سب پاکستان میں ہی ہو سکتا ہے۔

جس ملک میں عدالتی فیصلے کو بے توقیر کیا جائے، وہاں سب کچھ ہو سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن صدر پاکستان سے ملاقات سے معذرت کر لے مگر امریکی سفیر سے ملاقات کر لے، سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 روز میں الیکشن نہ ہوں، عدالت حکم دے کہ پرویز الہیٰ کو کوئی گرفتار نہیں کر سکتا مگر انہیں 11 بار گرفتار کر لیا جائے، ایک ماہر تعلیم پروفیسر جنید حفیظ کو ایک متنازعہ قانون میں سزائے موت سنا دی جائے، دو دفعہ ملک کے وزیر خارجہ رہنے والے شاہ محمود قریشی کو بار بار آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا جائے، ملک کا مقبول ترین سیاست دان اور سابق وزیراعظم عمران خان جو ایک قومی ہیرو ہے جس کی خدمات صرف کرکٹ تک ہی محدود نہیں بلکہ سماجی خدمات میں 3 کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے ادارے شامل ہیں، اس کو جس طرح ایک مضحکہ خیز مقدمہ میں سزا سنائی گئی اور اب جس طرح نام نہاد آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت گرفتار کیا ہوا ہے یہ سب ملک کی جگ ہنسائی کا سبب بن رہا ہے۔

اسی ملک میں ارشد شریف شہید پر ایک دن میں 12 مقدمات درج ہو جاتے ہیں۔ جس طرح وہ ملک چھوڑ کر جاتا ہے اور پھر قتل کر دیا جاتا ہے ایک سوالیہ نشان ہے۔ اسی طرح عمران ریاض 3 ماہ سے لاپتہ ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کی بے بسی سب کے سامنے ہے۔ سماعت کے دوران عمران ریاض کے والد کو فون پر کہا جاتا ہے کہ خاموش رہو، تمارا بیٹا ایک ہفتے تک گھر آ جائے گا۔ وہ مجبور باپ جج سے وقت مانگ لیتا ہے مگر آفرین ہے جج صاحب پر جو یہ نہیں پوچھتے کہ آخر یہ فون کس کا تھا، کون سی ایجنسی ہے جو ہائی کورٹ سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔

اسی لاہور ہائی کورٹ میں تحریک انصاف کی خواتین کو کور کمانڈر ہاؤس کیس میں عابد ساقی جو لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین رہ چکے ہیں، ان کے جاندار دلائل کے باوجود ضمانت نہیں ملتی، یہ سب صرف پاکستان میں ہی ہو سکتا ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔