ذرائع کے مطابق ملکی سیاست میں فیصلہ کن کردار کے حامل کرداروں کے ایک تازہ اکٹھ میں کرونا وائرس سے درپیش ایمرجنسی صورتحال اور اس بابت حکومتی کارکردگی پر تفصیلی بحث میں اس امر پر اتفاق رائے پایا گیا کہ ان حالات میں بھی انتہائی ناقص گورننس کے نتیجے میں کسی بھی مرحلے پر عوام تنگ آکر گھروں سے نکل کے سڑکوں پہ آسکتے ہیں اور ملک افراتفری کا شکار ہوسکتا ہے جس سے قومی سلامتی کے خطرے میں پڑ جانے کا خدشہ لاحق ہے ، لہٰذا کسی 'اور' کو معاملات ہاتھ میں لینا ہوں گے اور ڈیلی بزنس میں اپنا کردار بڑھانا ہوگا۔
ذرائع کے مطابق 'کسی اور' نے لاک ڈاؤن کے دوران لاچار ، غریب ، مزدور ، نادار گھرانوں اور دیہاڑی دار افراد تک راشن اور روزمرہ ضرورت کی اشیاء حکومت کی مجوزہ ٹائیگر فورس کے رضا کاروں کی بجائے کورئیر سروس کے ذریعے گھروں میں پہنچانے کی متبادل تجویز دے دی ہے اور باور کیا جاتا ہے کہ اسے منظور بھی کرالیا گیا ہے۔
دریں اثناء "چینی آٹا بحران سکینڈل" کی انکوائری رپورٹ منظر عام پر آجانے کے بعد "کسی اور" کی انتہائی ناپسندیدہ 3 حکومتی شخصیات میں شامل اعظم خان پرنسپل سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر کی " قربانی " دی جاسکتی ہے . تجزیہ کاروں کے نزدیک اسی لئے جہانگیر ترین نے اپنے جوابی وار پر وزیر اعظم عمران خان کی بجائے اعظم خان کو نشانے پر رکھا ہے جبکہ دوسری طرف حکمران جماعت کے 2 اہم رہنماء ، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر وزیر دفاع پرویز خٹک صورتحال کو سنبھالنے کی غرض سے میدان میں اتر آئے ہیں جنہوں نے جہانگیر ترین سے الگ الگ ملاقات کی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے صورتحال کو نارملائز کرنے کی اس move میں ان حکومتی شخصیات کو وزیراعظم عمران خان کی آشیرواد بھی حاصل ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان درحقیقت "بڑوں" کا ہی کا ہدف ہیں جبکہ جہانگیر ترین کو " سبسڈی سکینڈل " میں قانونی طور پر گرفت میں لایا نہیں جاسکتا جنہوں نے 2018 کے الیکشن کے بعد حکومت سازی کے لئے مطلوبہ ہدف پورا کرنے میں پی ٹی آئی کی مدد مقتدر حلقوں ہی کی خواہش پر کی تھی .
ذرائع کے مطابق دوسری طرف وزیراعظم کوایک سرکاری خفیہ ایجنسی کی یہ رپورٹ ملنے پر چینی آٹا سکینڈل کی انکوائری رپورٹ پبلک کرنے پر مجبور ہونا پڑا کہ جہانگیر ترین چوہدری برادران اور شہباز شریف کے ساتھ مل کر پنجاب میں اقتدار کی کوئی نئی تثلیث بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس پر اس رپورٹ نے جہانگیر ترین کے ساتھ ساتھ شہبازشریف اور مونس الٰہی کے حوالے سے " چوہدریوں " کو بھی دفاعی پوزیشن پر دھکیل دیا .
ادھر منگل کو وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والی وفاقی کابینہ کی میٹنگ میں لگاتار 2 گھنٹے چینی آٹا سکینڈل پر بحث ہوتی رہی ، جس کے دوران یہ بات واضح ہوئی کہ انکوائری کمیشن یا کمیٹیوں کو دھمکیاں دینے والے جہانگیر ترین نہیں ، وفاقی وزیر تجارت رزاق داؤد کیمپ تھا جن سے ایک اہم عہدہ واپس لے کر انہیں پہلے ہی بے ضرر کیا جاچکا ہے .