کرونا کے خاتمے کے لیے جہالت کا خاتمہ ضروری ہے

کرونا کے خاتمے کے لیے جہالت کا خاتمہ ضروری ہے
دنیا کرونا سے چھٹکارہ پاتے پاتے ایک دفعہ پھر اس کی ایک اور خطرناک لہر کی زد میں ہے۔اس سے جہاں ترقی یافتہ ممالک بری طرح متاثر ہوئے ہیں وہاں ترقی پزیر ممالک جیسے پاکستان، بھارت وغیرہ تو بہت بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ دنیا کی معیشتیں سکڑ کر رہ گئی ہیں اور یہاں پر بھی جن لوگوں کو کرونا ایک ڈرامہ اور فریب لگتا ہے تو ان کی سوچ پر یقینی طور پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔

ویسے تو پاکستان ہمیشہ ہی نازک صورت حال سے دو چار ہوتا ہے مگر پاکستان اس وقت یقینی طور پر کرونا کی زور پکڑتی لہر کی وجہ سے نازک دور سے گزر رہا ہے۔

اگرچہ یہ بات درست ہے کہ اکانومسٹ جریدے نے اپنی فہرست میں پاکستان کی کرونا کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے مرتب پالیسی کی وجہ سے سنگاپور اور نیوزی لینڈ کے بعد تیسرے درجہ پر رکھا ہے مگر یہ درجہ چوتھی لہر کے پھیلاؤ سے پہلے تھا۔اب تو یہ صورت حال ہے کہ دن بدن کرونا کے کیسز بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں اور سندھ کے بڑے شہروں کے بعد دارالحکومت اسلام آباد میں بھی اس لہر کا پھیلاؤ زوروشور سے جاری ہے۔ابھی حال ہی میں ڈی سی اسلام آباد نے لگ بھگ 600 گھروں میں تقریباً 2000 افراد کے کرونا مثبت ہونے کا انکشاف کرتے ہوۓ ان علاقوں کو سیل کر کے سمارٹ لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا ہے۔ان میں سے اکثریت ڈیلٹا ویرئینٹ کا شکار اور ویکسین کے بغیر ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس نئی لہر کے لیۓ تیار ہیں یا نہیں؟ ابھی تک ہماری غیر سنجیدگی تو یہی ظاہر کرتی ہے کہ ہم اس نئی لہر کا مقابلہ کرنے کے لیۓ بالکل بھی تیار نہیں اور اگر خدانخواستہ اس دفعہ حالات بگڑ گۓ تو پہلی لہر سے زیادہ خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ابھی تک عوام کی اکثریت ویکسین لگوانے کے لیۓ بھی تیار نہیں ہے اور بعض جگہوں پر اس سلسلے میں سختی سے عمل کرانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔

ایک طرف تو عوام کی خاصی تعداد ابھی تک ویکسین لگوانے سے گریزاں ہے اور دوسری طرف ویکسین کی فراہمی بھی عوام کے حساب سے بہت کم ہے۔اب اگر فرض کر لیں کہ فی الحال ویکسین کا ہدف حاصل ہو بھی جائے تب بھی مستقبل میں اس کی ضرورت اللہ جانے کب تک مسلسل پڑتی رہے گی۔

تاہم اکثریت کی یہی رائے ہے کہ جب تک ستر فیصد لوگوں کی ویکسین نہیں ہو جاتی تب تک وائرس کا خطرہ سر پر منڈلاتا رہے گا۔

ترقی یافتہ ممالک کی اکثریت ویکسین کی فراہمی میں کافی حد تک بہتر ہے جن میں سے کافی ممالک نے لگ بھگ پچاس فیصد آبادی کی ویکسین مکمل کر لی ہے۔مگربہت سے ترقی پزیر ممالک ایسے جو یا تو ویکسین کی فراہمی میں بہت پیچھے ہیں یا پھر ان میں سے بھی کچھ ممالک ایسے ہیں جن کا مکمل انحصار دوسرے ممالک پر ہے اور وہ ابھی کچھ بھی شروع نہیں کر سکے۔اگر پاکستان کی مثال لیں تو پاکستان میں اگرچہ ویکسین لگوانے کا عمل جاری ہے مگر ایک تو عوام کی کثیر تعداد ابھی بھی ویکسین لگوانے پر آمادہ نہیں ہے اور دوسرا پاکستان کی امید کا زیادہ محور امداد میں ملنے والی ویکسین کے گرد ہی گھومتا ہے۔

تیز رفتار ویکسین کی فراہمی میں ایک اور بڑی رکاوٹ تجارتی مفادات ہیں۔مثال کے طور پر امریکہ،یورپی ممالک اور امیر عرب ممالک صرف اس ویکسین کو تسلیم کر رہے ہیں جو کہ امریکی یا یورپی کمپنی نے بنائ ہو جیسے فائزر، موڈرنا وغیرہ۔کچھ دن قبل سعودی حکومت نے ایسے افراد کو اپنے ملک میں پاکستان سے صرف اس بنا پر داخل ہونے سے روکا کہ ان کے پاس چائنہ کی ویکسین کا سرٹیفکیٹ تھا۔

ویکسین کی ترسیل کی ایک اور بڑی رکاوٹ عوام کی خاصی تعداد کی جاہلیت بھی ہے۔کچھ حضرات تو اس مفروضے پر قائم ہیں کہ جس نے بھی ویکسین لگوائی وہ اس کی وجہ سے پورے دو سال بعد مر جائے گا۔کچھ سیانے اس کے حرام و حلال میں الجھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔کچھ دانشور ایسے بھی ہیں جن کے مطابق ابھی بھی کرونا ایک ڈرامہ ہے اور اس نام کی بیماری کا کوئی وجود نہیں۔ ایسے حضرات سے میں یہی کہتا ہوں کہ وہ صرف ایک دفعہ کسی ہسپتال میں کرونا وارڈ کا چکر لگا لیں اور اگر پھر بھی یقین نہ آۓ تو کسی کرونا کے مریض کو بغیر کسی احتیاطی تدبیر کے مل لیں، اس کے بعد وہ خود ہی بتائیں گے کہ کرونا کا وجود موجود ہے یا نہیں۔

اب حکومت نے کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے سمارٹ لاک ڈاؤن بڑے شہروں میں پھر نافذ کرنا شروع کر دیا ہے۔اس بیماری سے بچاؤ کے لیۓ باہمی تعاون اور جاہلیت سے پاک سوچ کی اشد ضرورت ہے۔جن لوگوں کو ویکسین کی سہولت دستیاب ہے ان کو فوری طور پر اپنے اور دوسروں کے لیۓ ویکسین لگوا لینی چاہیۓ۔اس کے علاوہ سماجی سطح پر فاصلہ رکھیں اور ماسک کا استعمال ضرور کریں،مگر یہ ماسک کا استعمال ناک،ہونٹ اور ٹھوڑی پر ہونا چاہیۓ نہ کہ صرف کان یا ٹھوڑی پر۔اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ دوسرے سے بات کرتے وقت ماسک اتار لیتے ہیں۔سب کو مل کر اس وبا سے مقابلہ کرنا ہو گا ورنہ جاہلیت سے ہم اپنا اور دوسروں کا نقصان ہی کریں گے۔

 

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔