کرونا وائرس جس کی ابتدا تقریباً ایک برس قبل چین سے ہوئی تھی اس نے ابھی تک پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور یہ وبا
دنیا کے بیشتر ممالک میں کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ اس وقت دنیا میں کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد تقریباً پچاس ملین
سے تجاوز کر چکی ہے۔ امریکہ میں تمام تر دنیاوی وسائل ہونے کے باوجود اس وبا میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہوتا چلا جارہا
ہے۔
پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں بھی کرونا کی دوسری لہر زور و شور سے جاری ہے اور اس کی تباہی پہلی لہر سے زیادہ دیکھنے میں آ رہی ہے۔ پاکستان میں اللہ کی طرف سے کرونا میں مجموعی طور پر دوسرے کئی ممالک کی نسبت کمی دیکھنے میںآئی مگر بدقسمتی سے عوام کی کثیر تعداد نے اس کو سنجیدہ نہیں لیا چنانچہ اسی وجہ سے اب کرونا کی دوسری لہر پہلی لہر کی نسبت زیادہ شدید اور خطرناک نظر آ رہی ہے۔
اب ان عوامل کا جائزہ لے لیتے ہیں جن کی وجہ سے کرونا کم ہونے یا ختم ہونے کی بجائے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اگر سب سے پہلے
امریکہ کی بات کی جائے تو امریکہ میں کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کی بنیادی وجہ سیاسی غیر سنجیدگی اور عوام کی بے احتیاطی شامل ہے۔ سیاسی غیر سنجیدگی جو کہ صدر امریکہ ٹرمپ صاحب سے شروع ہوتی ہے اور شاید اس معاملہ میں ان پر ہی ختم ہوجاتی ہے۔ امریکہ میں کرونا کے ابتدائی کیسز ریاست کیلی فور نیا اور واشنگٹن میں سامنے آئے تھے۔ اگر بیرون ملک سے آنےمسافروں سے سختی سے قرنطینیہ کرایا جاتا اور اوپر بتائی گئی ریاستوں کو کچھ ہفتوں کے لیۓ سیل کر دیا جاتا یا ملک بھر میں
سمارٹ لاک ڈاؤن پر عمل کیا جاتا تو نوبت یہاں تک نہ آتی۔
اسی طرح اگر ٹرمپ صاحب پہلے دن سے ہی ماسک لازمی قرار دے دیتے اور خود ماسک پہن کر اپنا نمونہ دکھاتے تو کرونا پر
کافی حد تک قابو پانا ممکن تھا۔اس کے بعد رہی سہی کسر سیاسی جلسوں اور افریقن امریکن جارج کے قتل کے بعد ہونے والے
مظاہروں میں لوگوں کی سماجی فاصلہ رکھے بغیر شرکت نے پوری کر دی۔
اب نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ عالمی طاقت تمام تر دنیاوی وسائل رکھنے کے باوجود محض سیاسی غیر سنجیدگی اور عوامی
جہالت کی وجہ سے کرونا وائرس سے ابھی تک نبرد آزما ہے۔نۓ صدر بائڈن نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ جنوری میں حلف اٹھانے
کے بعد ہنگامی بنیادوں پر کرونا سے نمٹنے کے اقدامات کریں گے۔
اب پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو ملک میں کرونا کے کیسز کی وہ شدت نہیں جو کہ امریکہ میں یا بھارت میں ہے مگر بہرحال
کرونا کی دوسری لہر زوروشور سے جاری ہے۔ اور اس کا سب سے زیادہ شکار پہلی صف میں لڑنے والے مجاہد یعنی ڈاکٹر
حضرات ہیں۔اس کے بعد دیگر عوام الناس بھی اس کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
پاکستان میں کرونا کے پھیلاؤ میں عوام الناس بشمول سیاستدانوں کی خاصی تعداد نے بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا ہے۔عوام کی کچھ
تعداد تو کرونا کو واقعی سنجیدگی سے لے کر احتیاط کر رہی ہے مگر عمومی طور پر کرونا کو غیر سنجیدہ لیا گیا اور ابھی تک لیا
جا رہا ہے۔ایک نیوز رپورٹر نے کئی بڑے شہروں میں سروے کیا اور بازاروں میں گھوم کر لوگوں کے کرونا بارے تاثرات
جانے۔لوگوں کی بڑی تعداد نے ماسک تک نہیں لگایا ہوا تھا اور ان کے مطابق کرونا صرف ایک ڈرامہ اور بین الاقوامی سازش کا
نام ہے۔
میرے ایک جاننے والے بتا رہے تھے کہ کراچی میں بعض مقامات پر تو بالکل بھی ماسک استعمال نہیں کیا جا رہا اور اگر کسی نے
ماسک لگایا ہو تو وہاں پر موجود عوام اس کے بارے میں یہ گمان کرتی ہے کہ یہ شخص ضرور کوئی سرکاری افسر یا پھر امیر
پیسے والا شخص ہے۔ گویا انہوں نے خود ہی فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم غریب، کم پڑھے لکھے یا مڈل کلاس لوگ ہیں اس لیئے جہالت پرصرف ہمارا ہی حق ہے۔
اب اگر ملک میں عوام کی رہنمائی کرنے والے سیاست دانوں کا جائزہ لے لیں تو ان کے موجودہ جلسے بالخصوص پی ڈی ایم کے
عوامی اجتماعات کا عالم دیکھ کر لگتا ہے کہ یا تو اس ملک میں کبھی کرونا نامی کوئی بلا آئی ہی نہیں اور یا پھر یہاں کی عوام اتنی
کرونا دوست ہے کہ انہیں کرونا کچھ نہیں کہہ سکتا۔
عوامی اجتماعات میں بھی لوگ ماسک شازونادر ہی استعمال کر رہے ہیں اور اگر کسی نے کر بھی لیا ہے تو سماجی فاصلہ رکھے
بغیر استعمال کیا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ان سیاست دانوں کے سٹیج کا بھی جائزہ لیا جائے تو ان میں سے چند ایک ہی ماسک
استعمال کر رہے ہیں اور باقی نہ تو ماسک استعمال کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئ دیگر احتیاط کی جا رہی ہے، غرض راوی چین ہی
چین لکھ رہا ہے۔
جو حال سیاست دانوں کا ہے اسی سے ملتا جلتا حال علمائے کرام اور دیگر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی ریلیوں اور
اجتماعات کا ہے۔ اگر ان میں سے کسی کو کرونا کے بارے میں شک ہے تو ان کو چاہیۓ کہ ان افراد سے مل لیں جو یا تو خود اس کا
شکار ہوۓ ہیں یا پھر جن کے رشتہ دار اس کا شکار ہو کر جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یہ افراد جو قوم کی رہنمائی کرنے کا اعلان کرتے
ہیں اور قوم کی حفاظت کے لیۓ کچھ نہیں سوچتے ان کو عوام کی رہنمائ کا بھی کوئ حق حاصل نہیں۔
حکومت کو بھی چاہیئے کہ کرونا کے حوالے سے سختی سے لائحہ عمل بنا کر اس کو سب پر لاگو کرے۔اللہ پاک سے امید ہے کہ اس کی ویکسین جلد ہی عام بندے کی پہنچ میں ہو گی مگر اس وقت تک احتیاط ہی واحد علاج ہے اس چھوتی بیماری سے بچاؤ کے لیئے۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔