1100 سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی بھرتی تنقیدی آوازوں کو خاموش کروانے کا نیا حربہ؟

1100 سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی بھرتی تنقیدی آوازوں کو خاموش کروانے کا نیا حربہ؟
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے گذشتہ ہفتے قریب 1100 سوشل میڈیا انفلوئنسرز 25 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر بھرتی کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ تفصیلات کے مطابق صوبائی حکومت نے مختلف اضلاع سے ایک ہزار 96 میڈیا انفلوئنسرز بھرتی کیے ہیں جن میں 37 خواتین ملازمین بھی شامل ہیں۔

نیا دور میڈیا کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق منصوبے کے لئے 87 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے لیکن نظرثانی شدہ پی سی ون میں رقم 73 کروڑ 60 لاکھ روپے کی گئی۔

پروجیکٹ منیجر زرعلی نے میڈیا کو جاری کیے گئے ایک پیغام میں کہا کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو ایک سالہ کنٹریکٹ پر رکھا گیا ہے اور ان کو ماہانہ 25 ہزار روپے تنخواہ دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ انفلوئنسرز حکومت کی پالیسیوں اور کارکردگی کو سوشل میڈیا پر اجاگر کریں گے اور حکومت کے خلاف منفی پراپیگنڈے اور جھوٹی خبروں کا مقابلہ کریں گے۔

لیکن پاکستان تحریک انصاف پر صحافیوں، سیاسی لیڈروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کرنے کے الزامات لگتے ہیں اور حال ہی میں ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہونے والے پاکستان آرمی کے افسران اور جوانوں پر بھی پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے توہین آمیز ٹوئیٹس سامنے آئے ہیں جس پر پاک فوج کے اطلاعاتِ عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر نے سخت ردعمل دیا ہے۔

سیاسی ابلاغ عامہ اور ڈیجیٹل تحفظ پر کام کرنے والے کارکنوں کا ماننا ہے کہ اب ٹرولنگ کو باقاعدہ سرکاری خزانے سے معاونت حاصل ہو گئی ہے اور سیاسی کارکنوں، صحافیوں کو ہراساں کرنے میں مزید تیزی ائے گی۔

معروف صحافی اور اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ بظاہر مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی قوم کے ٹیکس کے پیسوں سے جو نیا ' سوشل میڈیا بریگیڈ' بھرتی کرنے کی خبریں آئی ہیں، اس کا مطلب یہی ہے کہ سرکاری خزانے سے گالم گلوج بریگیڈ کا وجود مضبوط کیا جائے گا تاکہ تنقیدی آوازوں کو خاموش کیا جائے۔

خیبر پختونخوا کے اطلاعات و نشریات کے ادارے کے افسر نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ سوشل میڈیا کارکنوں کو بھرتی کرنے کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے لیکن میں یہ بتاتا چلوں کہ ان کو بھرتی کرنے کے لئے قانونی طریقہ کار اپنایا گیا ہے اور جو لوگ بھرتی کیے گئے ہیں ان کی مانیٹرنگ کا ایک باقاعدہ نظام ترتیب دیا گیا ہے اور ان کا کام صرف حکومتی کاموں کی تشہیر اور حکومت مخالف پراپیگنڈا کا دلیل سے جواب دیں گے۔ وہ کہتے ہیں ہم ہر سال اربوں روپے ٹی وی اور اخبارات کو اشتہار کی مد میں دیتے ہیں لیکن ہم نے پالیسی بدلی اور نوجوانوں کو انٹرن شپ پر بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک طرف سینکڑوں نوجوانوں کو روزگار ملے گا اور دوسری طرف حکومتی خزانے پر بوجھ کم ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ باقاعدہ ملازمت نہیں بلکہ ایک قسم کی انٹرن شپ ہے جو چھ مہینے پر محیط ہے۔ اطلاعات و نشریات کے افسر نے کہا کہ ان تمام لوگوں پر مکمل چیک ہوگا اور یہ کسی قسم کی ٹرولنگ کا حصہ نہیں ہوں گے۔

تاہم، اسلام آباد میں مقیم پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر نے بتایا کہ پہلی بات یہ ہے کہ بڑے بڑے مشہور برینڈز 1100 کی تعداد میں لوگ نہیں رکھتے جتنے خیبر پختونخوا حکومت نے بھرتی کیے ہیں۔ یہ واضح نہیں کہ کیا یہ لوگ گھر سے کام کریں گے اور اگر نہیں تو 1100 لوگوں کو کہاں بٹھایا جائے گا؟ مجھے نہیں لگتا کہ یہ صرف حکومتی کاموں کی تشہیر کریں گے کیونکہ اس کے لئے پہلے سے لاکھوں پاکستان تحریک انصاف کے کارکن سوشل میڈیا پر موجود ہیں جو تشہیر کے ساتھ ساتھ گالم گلوچ کی ذمہ داریاں بھی ادا کرتے ہیں۔ مجھے یہی لگتا ہے کہ بیانیے کی اس جنگ میں عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت کو باقاعدہ ایک تربیت یافتہ ٹیم کی ضرورت ہے جو مخالفین پر ٹوٹ پڑے اور سوشل میڈیا پر مخالف تنقیدی آوازوں کو خاموش کروائے۔ وہ کہتے ہیں کہ تشہیر کے لئے پورا انفارمیشن ڈپارٹمنٹ اور میڈیا ہے لیکن اس بھرتی کے پیچھے سیاسی عوامل کارفرما نظر آتے ہیں۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے نام پر جو 1100 افراد بھرتی کیے گئے ہیں وہ پاکستان تحریک انصاف کے فنڈز سے بھرتی نہیں کیے گئے ہیں بلکہ حکومتی خزانے سے ان کو بھرتی کیا گیا اور اس پر ہمارے ٹیکس کا پیسہ خرچ کیا جائے گا۔ جب ہمارے ٹیکس کا پیسہ خرچ ہوگا تو اب یہ ضروری ہے کہ جو لوگ بھرتی کیے گئے ہیں ان کے نام اور دیگر تفصیلات جاری کی جائیں اور ساتھ اس پروجیکٹ کے ٹی او آرز بھی پبلک کیے جائیں۔

نگہت داد نے مزید کہا کہ ان کے نام پبلک کرنے سے کم از کم یہ معلوم ہو جائے گا کہ انٹرنیٹ پر ان لوگوں کا ماضی کیا ہے اور آج کل وہ انٹرنیٹ پر کیا مواد لگا رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ گذشتہ کچھ سالوں میں پولرائزیشن میں کافی اضافہ ہوا ہے اور پاکستان تحریک انصاف جب حکومت میں تھی تو جو لوگ میڈیا میں تھے حکومت جانے کے بعد بھی انتہائی اشتعال انگیز زبان استعمال کر رہے ہیں۔ نگہت داد اس نکتے سے اتفاق کرتی ہے کہ اگر ان ملازمین کی تفصیلات اور کام کا طریقہ کار جاری نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ تحقیقاتی اداروں سمیت صوبائی اور وفاقی پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کو اس بھرتی کی تحقیقات کرنی چاہئیں اور اس کی تمام تفصیلات منظر عام پر لانی چاہئیں۔ "کیونکہ پاکستان تحریک انصاف نے سوشل میڈیا خصوصاً ٹوئٹر، فیس بک، ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر جو اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے یہ بھی ایک بہت بڑا سوال ہے۔ اس کی تحقیقات ہر صورت ہونی چاہئیں"۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔