شہباز شریف جن دنوں بہت شدت سے وزارت عظمیٰ کے طلب گار تھے ان دنوں انہوں نے ' کام کو عزت دو' کا بیانیہ متعارف کرایا تھا۔ کچھ لوگ بجا طور پر یہ سمجھتے تھے کہ یہ ' ووٹ کو عزت دو' کا متبادل تھا۔ اگرچہ شہباز شریف اور ان کے ہم خیال اس کی تردید کرتے رہے۔ پھر ' کام کو عزت دو' کا بیانیہ بری طرح پٹ گیا اور مسلم لیگ ن ضمنی انتخابات بری طرح ہار گئی۔ اگرچہ اس ناکامی کی اور بھی وجوہات ہوں گی لیکن نواز شریف کے بیانیے ' ووٹ کو عزت دو' سے روگردانی اس کی پہلی اور بڑی وجہ تھی۔
نواز شریف نے ' ووٹ کو عزت دو' کا بیانیہ بہت سوچ سمجھ کر اختیار کیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ پاکستانی عوام کے لئے اس بیانیے کی تفہیم قدرے مشکل ہو گی اور لوگ ذرا مشکل سے اس کی تہہ تک پہنچ پائیں گے۔ میں ان دنوں مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو بار بار ایک ہی بات کہتا تھا کہ اس بیانیے کو عوام تک پہنچائیں اور انہیں سمجھائیں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ اگرچہ مفاہمتی گروپ کو یہ بیانیہ راس نہیں تھا لیکن اس کی مخالفت بھی ان کے بس میں نہیں تھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ بیانیہ شہروں سے دیہاتوں تک اور پڑھے لکھوں سے ان پڑھوں تک سرایت کر گیا اور اس بیانیے کی تفہیم بڑھتی چلی گئی۔ سوشل میڈیا پر اس کو بے حد پذیرائی ملی۔
اس وقت کی حکمران جماعت کو یہ بیانیہ فوج دشمن دکھائی دیتا تھا اور وہ اس کا توڑ اسی حوالے سے کرتے تھے۔ وہ ووٹ کی عزت پر جرنیلوں کی حمایت کو ترجیح دیتے تھے اور جس بات سے جرنیلی عزائم کی نفی ہوتی ہو وہ انہیں پسند نہیں تھی۔ انہوں نے جرنیلوں کی مدد سے اگلے 10 سال کے لئے حکمرانی کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ آج جماعت اسلامی جمہوریت، احتساب اور بچت کی چیمپئن بن رہی ہے، اس وقت جماعت اور لالہ سراج الحق کو بھی یہ سب کچھ یاد نہیں تھا۔
نواز شریف نے کبھی فوج کو بطور فوج تنقید کا نشانہ نہیں بنایا، انہیں اختلاف ان جرنیلوں سے رہا ہے جو اپنی آئینی حدود سے نکل کر سیاسی حدود میں مداخلت کرتے ہیں۔ وہ کیانی، پاشا، فیض حمید کے کرتوتوں کو اچھی طرح جانتے تھے۔ جب ان کے بیانیے کو فوج مخالفت کا نام دیا گیا تو انہوں نے جرنیلی سیاہ کاریوں کو فوج کے دامن سے دور رکھنے کے لئے جرنیلوں کے نام لینا شروع کر دیے۔ میں کہہ نہیں سکتا کہ فوج میں اس کا کیا ردعمل ہوا لیکن مخالفین نے جرنیلوں کو فوج باور کرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔
مسلم لیگ ن کے کارکن 2018 میں ووٹ کی عزت کی پامالی اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے، اس لئے ' ووٹ کو عزت دو' ان کے دل کو چھونے والا نعرہ تھا۔ اس کے علاوہ جن لوگوں نے مسلم لیگ ن کو ووٹ دیے تھے وہ دیکھ رہے تھے کہ انتخابات سے پہلے کیسی دھاندلی کی گئی اور انتخابات کے بعد ان کے ووٹ کو کس طرح پامال کیا گیا تاکہ ایک پسندیدہ کٹھ پتلی کو ایوان حکوت میں سجایا جا سکے۔ ووٹ کو عزت نہ دینے کے نتیجے میں ملک اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا وہ سب عوام کے سامنے تھا۔ عوام اور سیاسی جماعتیں شدید کشمکش اور اضطراب میں مبتلا تھیں۔
حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں بھی حکومت کی ڈوریں کہیں اور سے کھینچے جانے کا اظہار کیے بغیر نہیں رہتی تھیں اور برملا کہہ دیتی تھیں؛ 'ہم آئے نہیں، لائے گئے ہیں'۔ یا پھر کہہ اٹھتے تھے کہ ہمیں کہا گیا تھا 'تم آ رہے ہو' یا 'تمہیں لانا پڑے گا'۔ اس ماحول میں بھی اگر کوئی ووٹ کی عزت کے سوال پر سوال اٹھاتا تھا تو وہ صرف پی ٹی آئی تھی یا مسلم لیگ ن کا مفاہمتی گروپ تھا جو کھل کر تو مفاہمت کے ذریعے ایوان اقتدار تک پہنچنے کی بات نہیں کرتا تھا لیکن کبھی نہ کبھی یہ خواہش ان کے لبوں تک آ ہی جاتی تھی۔ افسوس کہ مسلم لیگ ن کی پہلی صفوں میں اچھی خاصی تعداد میں لوگ موجود تھے جو اسٹیبلشمنٹ کی نوکری کر کے اقتدار تک پہنچنے کے خواہش مند تھے۔ ' ووٹ کو عزت دو' کے بیانیے کے حامیوں کو جہاں سیاسی دشمنوں سے زخم ملے، وہیں اپنی صفوں میں موجود عناصر سے بھی بہت دکھ ملے۔
شہباز شریف ان دنوں الوداعی تقریریں کرتے پائے جاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک حالیہ تقریر میں انہوں نے اپنے مستقبل کے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے ایک بار پھر ' ووٹ کو عزت دو' کے ساتھ ' کام کو عزت دو' کی پیوند کاری کی کوشش کی ہے۔ شہباز شریف ایک محنتی اور ان تھک انسان ہیں لیکن ان کی سوچ میں نواز شریف والی گہرائی اور گیرائی نہیں ہے۔ اگر ان میں نواز شریف والی گہرائی کا شمہ بھی ہوتا تو وہ نواز شریف کے بیانیے ' ووٹ کو عزت دو' میں پوشیدہ جہان معنی کا کچھ ادراک کر لیتے۔ ' کام کو عزت دو' کے نعرے میں جو سطحی پن اور کمزوریاں ہیں، شہباز شریف ان سے بے خبر ہیں۔
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہبازی؟
اول تو نواز شریف کے بیانیے ' ووٹ کو عزت دو' کے بعد کوئی اور نعرہ یا بیانیہ متعارف کرانا کارکنوں کو کنفیوژ کرنے کا سبب بنتا ہے، دوسرا اس سے ان لوگوں کی سوچ کو تقویت ملتی ہے جو مسلم لیگ ن میں فکری اختلاف کی بات کرتے ہیں۔ یاد رہے فکری اختلاف عملی سیاسی انتظامی اختلاف سے کہیں زیادہ سنگین ہوتا ہے۔ اسی سے جماعتوں میں پھوٹ پڑتی ہے اور جماعتوں کا شیرازہ بکھرتا ہے۔
کام کی بڑی عزت ہے اور بے شک ووٹر کام کو بھی مد نظر رکھتا ہے لیکن کیا شہباز شریف نہیں جانتے کہ پی ٹی آئی کے کارکن برملا کہا کرتے تھے کہ پٹرول 300 روپے لیٹر بھی ہو جائے ہم پھر بھی ووٹ عمران خان کو ہی دیں گے۔ شہباز شریف نے تو جاتے جاتے پٹرول، گیس اور اشیائے خور و نوش کو مہنگا کر کے خدمت کی عزت کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ کیا عوام بڑے بڑے منصوبوں کے افتتاح کو 'خدمت' قرار دے کر ووٹ شہباز شریف کی جھولی میں ڈال دیں گے؟ اگر عوام واقعی ان منصوبوں سے متاثر ہو کر ووٹ دے دیں لیکن ووٹ کو عزت نہ ملے یعنی نتائج بدل جائیں اور لوگوں کو پارٹی بدلنے پر مجبور کر دیا جائے، چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو ڈرا دھمکا کر من پسند جماعت سے نتھی کر دیا جائے تو کام کی عزت تو لٹ جائے گی۔
ووٹر تو کہہ سکتا ہے کہ میں نے تو کام کو عزت دے دی، اب جس کو دی اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے یہ میرے سوچنے کی بات نہیں۔ ووٹ کی عزت کا مقصد ہے ووٹ کی طاقت کو تسلیم کرنا، ووٹر کی خواہش کو تسلیم کرنا اور ووٹر کے ووٹ سے آنے والے کے خلاف سازشوں کو روکنا۔ اگر ووٹ کی عزت کو تسلیم کر لیا جائے تو ووٹر کو یقین ہو جائے گا کہ وہ اپنے حکمران اپنی مرضی سے منتخب کر سکتا ہے اور اس کے ووٹ کو خواہ وہ کام کی عزت سے ہو یا نام کی عزت سے، کوئی ٹھوکر مار کر بے عزت اور بے دخل نہیں کر سکتا۔
'ووٹ کی عزت' ایک دائمی جمہوری سوچ ہے جس کا ہر جگہ ہر زمانے میں اطلاق ہوتا ہے۔ کام کی عزت ہر جگہ مختلف اور سیاسی وابستگی کے تابع ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکن کے نزدیک خدمت وہی ہے جو عمران خان کر گیا اور جو وہ کر رہا ہے۔ خدمت کے عوض ووٹ لینا ہے تو ہر حلقے میں خدمت کے آثار مختلف ہیں، معیار مختلف ہیں۔ ووٹ کی عزت کو آپ عالمی سطح پر پورے زور شور سے منوا سکتے ہیں لیکن خدمت کی عزت کو عالمی سطح پر نہیں منوا سکتے۔ امریکا اور چین یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ووٹ کی عزت کا تقاضا ہے کہ ووٹر کے فیصلے کو تسلیم کیا جائے لیکن کوئی بھی ووٹر سے یہ نہیں کہے گا کہ جس نے تمہاری زیادہ خدمت کی ہے اسے ووٹ دو اور اسے حکومت کرنے دو۔ شہباز شریف ان غلط فہمیوں سے جتنا جلدی نکل آئیں خود ان کے لئے، مسلم لیگ ن کے لئے اور مسلم لیگ ن کے کارکنوں کے لئے اتنا ہی بہتر ہو گا۔