ماضی کے برعکس خواتین ڈاکٹرز کے لئے مناسب رشتے ملنا خاصا مشکل ہوتا جا رہا ہے

سوال یہ بھی ہے کہ اگر آپ کا لڑکا اچھا کماتا ہے تو آپ جہیز کے لیے بہو کے والدین کی طرف کیوں دیکھتے ہیں؟ آپ کہتے نہیں تھکتے کہ ہمارے بیٹے کی اتنی تنخواہ ہے، کیا وہ اس تنخواہ سے اپنے کمرے کا سامان نہیں بنوا سکتا؟ شادی تو ایک سنت تھی جسے اب بس ایک بزنس اور سامان اکٹھا کرنے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔

ماضی کے برعکس خواتین ڈاکٹرز کے لئے مناسب رشتے ملنا خاصا مشکل ہوتا جا رہا ہے

سنا بھی تھا اور پڑھا بھی کہ ڈاکٹر بہو صرف بہو نہیں بلکہ ایک برانڈ ہوتی ہے لیکن ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس برانڈ کی اہمیت میں کمی آتی جا رہی ہے کیونکہ ڈاکٹرز کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جو بن رہے ہیں ان میں سے 70 فیصد شرح خواتین ڈاکٹرز کی ہے جس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

اب زیادہ فیمیل ڈاکٹرز بننے کی وجہ سے اس پروفیشن کی وہ ویلیو نہیں رہی جو کہ ایک زمانہ میں تھی۔ میل ڈاکٹرز کی تعداد کم ہے اس لیے اب فیمیل ڈاکٹر کے لیےاچھے اور ویل سیٹلڈ میل ڈاکٹر کا رشتہ ڈھونڈنا آسان نہیں رہا کیونکہ فیمیل ڈاکٹرز بن بھی زیادہ رہی ہیں تو نان ڈاکٹرز کے ساتھ رشتے بھی طے کرنے پڑ رہے ہیں۔ آج سے دس بیس سال پہلے ڈاکٹر بہو کی جو ڈیمانڈ تھی اس میں اب خاطر خواہ کمی آ چکی ہے۔

پہلے کہا جاتا تھا کہ لڑکی ڈاکٹر ہے بس اتنا ہی کافی ہے لیکن اب ایسی بات نہیں رہی۔ اب لڑکی ڈاکٹر ہو، خاص شعبے میں ٹریننگ کر رہی ہو، اتنی ہائیٹ ہو، فیملی بیک گراؤنڈ مضبوط ہو، اچھے خاصے جہیز کی ڈیمانڈ بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ ایک خوفناک ٹرینڈ ہے۔ اگر لڑکی ان سارے لوازمات پر پوری اتر آئے تو ساس کی بالیاں اور نندوں کے لیے رنگز لازم و ملزوم ہیں۔

کیا ایک ڈاکٹر بہو سے بڑھ کر کوئی جہیز ہو سکتا ہے؟ لیکن نہیں، ڈھونڈ ڈھونڈ کر ڈیمانڈیں کی جاتی ہیں۔ ایک جاننے والی ڈاکٹر صاحبہ کو اشاروں میں بتا دیا گیا ہے کہ ہم نے مکان بنا دیا ہے، اب اس کو سجانا آپ کے جہیز نے ہے۔

اب یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ ڈاکٹر بہو بس اپنے سسرال کے شہر میں پریکٹس کرے گی، اگر دوسرے شہر میں ٹریننگ یا نوکری کرنا پڑے گی تو ہم اجازت نہیں دیں گے۔ یعنی کہ اگر اس کے سسرال کے شہر میں اس کی ٹریننگ ممکن نہیں تو وہ اپنے سپنے قربان کر دے۔ کیا اس سے بڑھ کر ہماری کوئی اجتماعی بے حسی ہو سکتی ہے؟ عجیب ہی صورت حال ہے۔ آج سے کچھ سال قبل ڈاکٹر بہو کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ تھی اور اب۔۔۔ اب لوگ رشتے کروانے والوں سے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ہے تو کیا ہوا، آج کل ڈاکٹر لڑکیوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ یہ نقصان ہوتا ہے جب آپ کی پروڈکشن ضرورت سے زیادہ ہو تو ایک سب سے اچھا پروفیشن بھی اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔

پہلے والدین یہ سمجھتے تھے کہ لڑکی ڈاکٹر بنا ہی اس لیے رہے ہیں کہ اچھا رشتہ مل جائے گا۔ اب لڑکی ڈاکٹر بن گئی، جاب بھی لگ گئی، لیکن اچھا رشتہ نہیں مل رہا۔ جو مل رہا ہے ان کی ڈیمانڈیں ہی نہیں پوری ہو پا رہیں تو والدین کہاں جائیں؟ اب انہیں احساس ہوا ہے کہ اچھے رشتے کی نیت سے بیٹی کو ڈاکٹر بنانے کی ان کی خواہش پوری ہونے کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔

سوال یہ بھی ہے کہ اگر آپ کا لڑکا اچھا کماتا ہے تو آپ جہیز کے لیے بہو کے والدین کی طرف کیوں دیکھتے ہیں؟ آپ کہتے نہیں تھکتے کہ ہمارے بیٹے کی اتنی تنخواہ ہے، کیا وہ اس تنخواہ سے اپنے کمرے کا سامان نہیں بنوا سکتا؟ شادی تو ایک سنت تھی جسے اب بس ایک بزنس اور سامان اکٹھا کرنے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔

اگر آپ ایک فیمیل ڈاکٹر کے والدین ہیں اور لڑکے والے آپ سے پھر بھی جہیز کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں تو آپ اس رشتے کو انکار کر دیں۔ کیا ایک ڈاکٹر بیٹی سے بڑھ کر کوئی قیمتی جہیز ہو سکتا ہے؟

مضمون نگار ڈاکٹر ہیں اور سر گنگارام ہسپتال لاہور میں آرتھوپیڈک سرجری کی ٹریننگ کر رہے ہیں۔