مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پچھلے 40 سے 50 سال میں جتنی مذہبی سیاسی جماعتیں بنی ہیں، یہ سب کی سب بنائی گئی ہیں۔ یہ سلسلہ 80 کی دہائی سے شروع ہوا جب ہمیں ایک جنگ لڑنی تھی تو ہم نے مذہب کو متشدد بنایا۔ اور یہ اس وقت کی حکومت نے امریکہ کے ساتھ مل کر کیا۔ نبراسکا سے باقاعدہ ایک ماڈل بن کر آیا کہ اس طرح سے آپ نے مذہب کو انتہا پسند بنانا ہے۔
اے آر وائے نیوز پر پروگرام آف دی ریکارڈ پر میزبان کاشف عباسی سے بات کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا:
"میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ ہم 'خدا حافظ' کہا کرتے تھے۔ پھر 'اللہ حافظ' متعارف کروایا گیا۔ ہماری روزمرہ کی بات چیت میں عربی اصطلاحوں کا استعمال بڑھایا گیا۔ قائدِ اعظم کا دیے ہوئے اصول 'Unity, Faith and Discipline' کو تبدیل کر کے اسے 'Faith, Unity and Discipline' سے تبدیل کیا گیا۔ یہ بہت ہی باریکی سے لوگوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کے لئے کیا گیا تھا۔ بہت دھیان سے قدم اٹھائے گئے اور اس کو پھر بڑھایا گیا۔ 90 کی دہائی میں دو بار ن لیگ اور دو بار پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو اس سے یہ رجحان ذرا دب گیا لیکن پھر پرویز مشرف نے آ کر پھر اس چیز کو ہوا دی جب اس نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں متحدہ مجلسِ عمل کو حکومتیں دیں اور ان مذہبی جماعتوں کی نشستوں کی تعداد 10، 15 سے بڑھ کر 67 پر چلی گئی"۔
خواجہ آصف نے کہا کہ یہ انتہا پسندی کو پھیلانا یا مذہب کو بنیاد پرستی کی طرف لے جانا کوئی دین کی خدمت کے لئے نہیں کیا جاتا بلکہ اس کا مقصد اپنی طاقت اور سیاست کے لئے کیا جاتا ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ میرے حلقے میں پیش آیا ہے اور زیادہ تر لوگ جو اس فیکٹری میں موجود تھے وہ یا تو میرے حلقے سے ہوں گے یا پھر ساتھ والے حلقے سے۔ انہوں نے کہا کہ میں خود بھی اس کی ذمہ داری لیتا ہوں کہ عوام اس طرح سے بنیاد پرستی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ متشدد رویہ آپ کے حلقے میں زیادہ ہے کیونکہ 2018 میں بھی آپ کے چہرے پر سیاہی پھینکی گئی اور اس وقت کے وزیرِ داخلہ احسن اقبال کو گولی ماری گئی جو کہ ان کے بازو پر لگی اور اللہ نے ان کی زندگی لکھی ہوئی تو بچ گئے ورنہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ 2018 میں انہوں نے اور تحریکِ انصاف سے ان کے مخالف امیدوار نے کل ملا کر قریب 2 لاکھ 30 ہزار ووٹ لیے تھے جب کہ تحریکِ لبیک کا اس حلقے میں ووٹ 11 ہزار کے نزدیک تھا۔ اسی طرح 2013 کے الیکشن میں بھی تین امیدواروں نے مل کر تقریباً 2 لاکھ ووٹ لیے اور مذہبی جماعتوں کے ووٹ نہ ہونے کے برابر تھے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اسلام امن کا دین ہے، یہ احترامِ آدمیت سکھاتا ہے۔ آج ہم نے اس کو تشدد کا دین بنا دیا ہے۔ کاشف عباسی نے ان کی بات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بندوق کا مذہب بن گیا ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ یہ ہم اپنے آپ کی، اپنی ثقافت اور اپنے مذہب کی نفی کر رہے ہیں۔ اور ایک بات بتا دوں کہ جب بھی مذہبی اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہوگی، اپنا اثر و رسوخ بڑھائے گی، ریاست کمزور ہوگی۔
لیگی رہنما نے اس موقع پر ایک انتہائی اہم پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک نئے سوشل کانٹریکٹ کی ضرورت ہے اور اس میں ایک نیا نکتہ اب یہ بھی شامل ہو گیا ہے جو سیالکوٹ واقعے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ہمیں ہی نہیں اب اسٹیبلشمنٹ کو بھی سوچنا ہوگا کہ یہ جو واقعہ سامنے آیا ہے، یہ خدانخواستہ ہماری تباہی کے عمل کو مہمیز نہ دینے لگ جائے۔ کاشف عباسی کا کہنا تھا کہ ہر واقعہ پر ردِ عمل دینے سے اب کام نہیں چلے گا۔ ہمیں اب خود سے شروعات کرتے ہوئے اس پر بات کرنا ہوگی اور ایک بیانیہ بنانا پڑے گا جو اس متشدد سوچ کو چیلنج کرتا ہو خواجہ آصف نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ میں اب زیادہ جذباتی بات نہیں کرتا، لوگ کہتے ہیں اب بڈھا ہو گیا ہے لیکن جہاں جذباتیت کی ضرورت ہوتی ہے، میں وہ بھی کرتا ہوں۔ مگر یہاں بات یہ ہے کہ آپ کو اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈنا پڑے گا۔ جو رجحانات ہیں تشدد کے مذہب میں، سیاست میں، معاشرے میں، یہ ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔
اس موقع پر میزبان کاشف عباسی نے وہ نکتہ اٹھایا جس پر ہمارے مین سٹریم میڈیا میں بات ہوتی ہی نہیں اور اس قسم کے واقعات شاید ہمارے اینکرز اور سیاستدانوں کو بھی یہ سچ بولنے پر مجبور کر ہی ڈالتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب آپ گھٹنے ٹیکتے ہیں، جب ریاست کہتی ہے ہم یہ نہیں کر سکتے، ان کے ساتھ معاہدے کر لو اور اس پر فلاں کے دستخط کروا لو۔ یہ چیز آپ کو ایسے دن دکھاتی ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ آپ نے بات ہی ختم کر دی ہے۔ پورے 22 کروڑ عوام، آپ کے بچوں سے لے کر آپ کے بزرگوں تک ہر بندا اس کی قیمت ادا کرے گا۔ کاشف عباسی نے کہا کہ ہاتھوں کی لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں، یہ وقت ثابت کرے گا۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ہم ابھی بھی گرہیں باندھ رہے ہیں۔
یہ گفتگو عوام الناس کو دعوتِ فکر دیتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ ہمارے سیاستدان چاہیں، صحافی چاہیں تو ان مسائل کی گتھی سلجھانے کی کوشش میں معاون بھی ثابت ہو سکتے ہیں، وہ صرف اسے مزیب گھمبیر بنانے کے ہی اہل نہیں۔ لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ میڈیا بھی سنسرشپ کا شکار ہے اور سیاستدان مجبوریوں کا، مصلحتوں کا اور خوف کا شکار ہیں۔ لیکن اگر اس ملک کو اس بدترین انجام سے دوچار ہونے سے روکنا ہے تو اس کے لئے یہ بحث بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور اسی سے برآمد ہونے والا نتیجہ، خواہ درست ہو یا غلط، اس ملک کے کروڑوں عوام کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔