توہینِ مذہب ہونی چاہیے یا نہیں؟ آپ کا کیا خیال ہے؟ واضح رہے کہ سوال یہ نہیں کہ توہینِ مذہب جرم ہونا چاہیے یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ توہینِ مذہب ہونی چاہیے یا نہیں۔ سب کے لئے تو کوئی ایک شخص نہیں بول سکتا مگر شاید ہی کوئی بنیادی سطح کی عقل رکھنے والا شخص بھی مذہب یا مذہبی شخصیات کی توہین کو درست یا کوئی احسن اقدام سمجھتا ہو۔ تو پھر ہماری اتنی شدید خواہش کیوں ہوتی ہے کہ گستاخی ہو یا نہ ہو، گستاخی کا کوئی عنصر ڈھونڈ نکالیں۔
آسیہ بی بی کا معاملہ ہی لے لیں۔ موقع پر کیا ہوا، کیا نہیں، کس کے کیا مفادات تھے، کس کی کیا ضرورت، اس سے قطع نظر، ایک عام آدمی، جس کا کوئی مفاد اس واقعے یا اس میں ملوث افراد سے نہیں جڑا، اس کو تو غیر جذباتی انداز میں سوچتے ہوئے صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ عدالت کے مطابق گستاخی نہیں ہوئی، الزام لگانے والوں کے بیانات میں تضاد ہے، تو پھر اچھا ہی ہے کہ گستاخی نہیں ہوئی۔ ہمارے نبیؐ کی شان میں گستاخی نہیں ہوئی، ہماری دانست میں کیا یہ بہتر نہیں؟
مگر آپ دیکھیے کہ کچھ لوگ نہ عدالتوں پر اعتبار کرنے کے لئے تیار ہیں، نہ ان حقائق پر جو پولیس رپورٹ میں موجود ہیں یا عدالت کے سامنے پیش کیے گئے ہیں۔ وہ بضد ہیں کہ گستاخی ہوئی ہے اور سزا لازمی دی جانی چاہیے۔ گویا، گستاخی کی سزا ملنا ان کے نزدیک زیادہ ضروری ہے، بجائے گستاخی کے واقع ہی نہ ہونے کے۔
اب آج اے آر وائے کے اینکر کاشف عباسی کے خلاف مہم شروع ہے کہ انہیں گرفتار کیا جائے کیوں کہ انہوں نے نعوذ باللہ حضرت عمرؓ کی شان میں گستاخی کی ہے۔ عباسی برادری مری، راولپنڈی، ہزارہ اور ان سے ملحقہ علاقوں میں بڑی تعداد میں آباد ہے۔ کاشف عباسی بھی اسی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اہلسنت مکتبِ فکر سے ہیں۔ کیا یہ بات عجیب سی نہیں لگتی کہ وہ حضرت عمرؓ کی شان میں گستاخی کر رہے ہوں؟
حقائق پر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ بوگس اور دلیل سے عاری الزام ہو سکتا ہی نہیں۔ جس پروگرام کا حوالہ دیا جا رہا ہے، اس میں تحریکِ انصاف رہنما اسد عمر اور جنگ گروپ سے منسلک صحافی عمر چیمہ ان کے مہمان تھے۔ اس دوران انہوں نے ان دونوں سے مذاق کرتے ہوئے ایک جملہ بول دیا۔ یہ جملہ صرف اس پروگرام کے سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو انتہائی بے ضرر سا جملہ ہے جس پر پروگرام میں موجود دونوں مہمان مسکرائے اور بات آگے بڑھ گئی۔
لیکن سوشل میڈیا پر صبح سے ایک طوفان برپا ہے کہ کاشف عباسی کو گرفتار کیا جائے کیوں کہ انہوں نے حضرت عمرؓ کی شان میں گستاخی کی ہے۔ ٹوئٹر پر اس وقت بھی یہ ٹرینڈ چوتھے نمبر پر موجود ہے اور اس پر 12 ہزار سے زائد ٹوئیٹس کی جا چکی ہیں۔
https://twitter.com/Kashifabbasiary/status/1194201780789399552
آخر یہ کیا دیوانگی ہے؟ بلاوجہ کسی کے بھی کسی بھی جملے پر توہین کا الزام لگا کر پھر یہ لوگ ان کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے لوگوں کو ناموس سے کوئی مطلب ہے ہی نہیں۔ ان کی دکان ہی ان فتووں پر چلتی ہے۔ ہر وقت تشدد پر، مرنے اور مارنے پر تلے ان لوگوں کا اصل مقصد ناموس کی حفاظت نہیں، تشدد، اور صرف تشدد ہے۔
تاہم، یہاں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اے آر وائے چینل اب سے کچھ عرصہ پہلے تک یہ سب کام خود بھی کرتا رہا ہے۔ 2014 میں شائستہ لودھی کے ایک پروگرام میں منقبت پڑھے جانے پر جیو نیوز کے اوپر کفر کے فتوے اسی چینل کی جانب سے لگائے گئے۔ خادم رضوی کے دھرنوں کی کوریج کی جاتی رہی۔ یہاں تک کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے مطابق 2017 میں خادم رضوی کے دھرنے کو کھانا بھی ایک نجی ٹی وی چینل 92 نیوز کی جانب سے پہنچایا جاتا رہا۔
کاشف عباسی سے مکمل ہمدردی کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ مطالبہ بھی کرنا ہوگا کہ ٹی وی چینل شخصی، کاروباری اور سیاسی مفادات کے حصول کے لئے گستاخی اور کفر کے فتووں کی دکانیں بند کریں۔ ہونا تو یہی چاہیے کہ ایک معروف اینکر پر اس قسم کا الزام لگنے کے بعد چینلز اپنی پالیسی میں تبدیلی لائیں گے، مگر ماضی کو مدِ نظر رکھا جائے تو بہت زیادہ پر امید ہونے کی کوئی وجہ سامنے نہیں آتی۔