دسمبر 2014 میں ٹی ٹی پی کے گرگ خونخوار آرمی پبلک سکول میں گھس کر 140 معصوم بچوں کو بیدردی سے قتل کر دیتے ہیں۔ کوئی مولوی، مولانا، عالم دین، اہلحدیث، شیخ الاسلام یا مفتی مذمت نہیں کرتا۔ صحافی را اور موساد کو کوستے ہیں۔ ان درندوں کے جنرل اسد درانی جیسے روحانی ابا جی بجائے مذمت کرنے کے الٹا شاباش دیتے ہیں یہ کہہ کر کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ ان جیسے ہی دانشور بچوں کی ماؤں کو مبارک باد دینے پہنچ جاتے ہیں کہ جی بچہ شہید ہو گیا اسلام کی راہ میں۔ ماں کہتی ہے میں نے تو سکول بھیجا تھا پڑھنے کو، جہاد پر تو نہیں!
قوم کا سب سے وڈا ہیرو اور قوم یوتھ کا باپ عمران خان موقع گنوا دیتا ہے کوئی بیان جاری کرنے کا لیکن اس دن سے دیے کی روشنی میں بیٹھا رات دن اپنے مطب میں تجربات کرتا رہتا ہے اور بالآخر 2 اکتوبر 2021 کو ایک ایسا کرشماتی مرہم تیار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جسے لگایا ٹی ٹی پی پر جائے اور زخم بھریں نہ صرف ان بچوں کے والدین کے بلکہ ساری قوم کے۔
اس مرہم کی افادیت کی تصدیق کرتے ہیں کائنات کے تین بڑے لقمان حکیم؛ جناب صدر مملکت عارف علوی جن کی وجہ شہرت دانت توڑنا ہے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر داخلہ شیدا ٹلی جسے عمران خان اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھے۔ ان تینوں سے پیٹنٹ کرانے کے بعد یہ عوام میں متعارف کیا جاتا ہے جسے والدین مسترد کر دیتے ہیں۔ ویسے اس مرہم کا نام تھا: 'ٹی ٹی پی کے واسطے عوامی معافی' انگریزی میں بولے تو: ‘!general amnesty/public pardon’
اصلی شامِ غریباں تو منائی آئی ایس پی آر نے۔ ایک گانا نشر کیا: 'دشمن کے بچے کو پڑھانا ہے!' لیکن یہ کسی نے نہ فرمایا کہ جی دشمن کے ساتھ کیا کیا جاوے۔ یہ دور کی کوڑی کوئی لایا تو صرف عمران خان لیکن لوگوں کی عقل پر مستقل پردہ کہ اپنانے کے بجائے مذمت کر دی۔
کس الہامی یا حکمت کے صحیفے میں رقم ہے کہ دشمن کا بچہ بھی دشمن ہے؟ بدترین دشمن اور اس کے بچے کو تعلیم کا حق ہے۔ یہ توجہ صرف دشمن کے بچے پر کیوں مرکوز ہو گئی؟ کیا اس نے قتل عام کیا تھا سکول میں؟ شاید سب ہی چاہتے ہیں کہ لوگ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں۔ شاید یہ سوچا گیا ہو کہ ہم 71 والے سانحے کی طرح یہ بھی جلد بھول بھال کر میلے کی رنگ رلیوں میں پھر سے کھو جائیں گے۔ لیکن کون ماں یا باپ معصوم لخت جگر کا خون بھول یا معاف کر سکتا ہے۔ سب ہی نے خان کو کھری کھری سنائیں۔ لیکن ہوا کچھ بھی نہیں اور ہم نے ٹی ٹی پی کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ہمیشہ سے کرتے آ رہے ہیں یعنی مذاکرات اور مراعات!
اب ٹی ٹی پی نئے عزم کے ساتھ بام عروج پر ہے۔ ہر مرد، عورت، بچے اور بوڑھے کو بے رحمانہ طریقے سے قتل کرنے کے درپے ہے۔ اس عزم کا اظہار 30 نومبر 2022 کو کیا گیا جب ہمیں کافی جہدوجہد کے بعد ایک برانڈ نیو آرمی چیف ملا۔ اس دن سے اب تک ٹی ٹی پی کم از کم روز ایک نیا گل کھلاتی ہے جس میں معصوم شہری مارے جاتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر زخمی ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ ہولناک قتل کل یعنی 6 دسمبر کو ہوا۔ بنوں میں ایک ایف سی کے سپاہی کو اس کے گھر میں گھس کر نہ صرف اسے بلکہ اس کے بیٹے کو بھی ناحق قتل کیا۔ تسلی پھر بھی نہ ہوئی۔ مقصود اسے نشانہ عبرت بنانا تھا سو اس کا سر کاٹا اور گاؤں کے باہر درخت پر لٹکا دیا۔ اسلام کا بول بالا ہو گیا! اس کے بعد میر علی کا رخ کیا اور ملک عالم گیر خان کو قتل کیا گیا جنہوں نے ٹی ٹی پی کے خلاف لشکر تیار کیا تھا اور فوج کے شانہ بہ شانہ لڑے تھے۔
لیکن یہ خون کی ندیاں حکمرانوں کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام ہوئیں۔ پہلے ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن تھا۔ پھر 'نیا آرمی چیف کسے لگائیں؟' ہوئی۔ جب یہ بھی حل ہو گیا تو اہم ٹنٹہ یہ بن گیا کہ پہلے کے پی کی اسمبلی تحلیل کریں یا پنجاب کی یا دونوں اکٹھے؟ یا یہ کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں!
نئے آرمی چیف نے اپنا تیر نکالا، بھارت کو نشانے پر رکھا اور تنبیہ کی کہ خبردار اگر کوئی الٹی سیدھی مہم شروع کی تو۔ چھلنی کر کے رکھ دوں گا۔ ٹی ٹی پی کے لیے میدان صاف ہے 2023 کے نئے جہاد کے مختلف تجربات کے لیے۔ وہ اس موقعے سے بھرپور فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔ اور وہ صحافی و تجزیہ نگار جنہوں نے کبھی زندگی میں غلیل بھی نہ اٹھائی آرمی چیف کو مشورہ دے رہے ہیں کہ کیسے نتھ پائی جاوے ٹی ٹی پی کو۔ اس ضمن میں ہمارے استاد نجم سیٹھی نے بہت اچھی بات کی۔ کہا اگر انہیں ماریں گے تو یہ افغانستان میں اپنے بھائیوں کے پاس پناہ لے لیں گے۔ ہم ان کا تعاقب وہاں نہیں کر سکتے۔ امریکہ بھی انہیں مارتا تھا۔ یہ ہمارے یہاں چھپ جاتے تھے۔ امریکہ ان کا تعاقب پاکستان میں نہیں کر سکتا کیونکہ ہماری خودمختاری پامال ہوتی ہے۔ ماضی کے جرنیلوں نے ایک آدھ بار اجازت دے بھی دی چاروناچار۔ ڈرون مارا سلالہ ہو گیا۔ پورے ملک میں رولا پے گیا۔ ہم نے نیٹو سپلائی بند کی۔ بڑی مشکل سے بلا ٹلی۔
سیٹھی صاحب نے درست کہا کہ گوریلا جنگ تو دنیا کی تین سپر پاورز بھی نہ جیت سکیں؛ برطانیہ، سابقہ سوویت یونین اور امریکہ۔ ہم کیا بیچتے ہیں؟ ہمارے پاس مذاکرات کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں۔ ٹی ٹی پی والے ہم سے زیادہ سیانے ہیں۔ مذاکرات شروع کر دیتے ہیں۔ ایک دو ہفتے سیز فائر بھی نافذ کر دیتے ہیں۔ اپنے بندے چھڑا لیتے ہیں۔ پیسہ اور ہتھیار بھی بطور انعام وصول کر لیتے ہیں۔ پھر سیزفائر سے مکر جاتے ہیں اور تازہ دم ہو کر پھر سے جہاد شروع کر دیتے ہیں۔
میں اختلاف کرتا ہوں اس رائے سے۔ ٹی ٹی پی کو کیا ضرورت افغانستان میں پناہ لینے کی جب ملک کا سابق وزیر اعظم، اس کے وزرا اور موجودہ صدر ہی اپنی ذات میں ٹی ٹی پی ہوں۔ ایک فرقے کا تو ہر مولوی ہی ٹی ٹی پی ہے۔ یہ سب ٹی ٹی پی کے لیے عام معافی چاہتے ہیں۔ اب تو کرکٹ ٹیم بھی ٹی ٹی پی ہی لگتی ہے۔ بجائے پریکٹس کرنے کے، میدان میں تبلیغ کرنا شروع ہو جاتی ہے اور میچ بھی بری طرح ہارتی ہے۔
ان حالات میں آئی ایس پی آر والا گانا ہی بہترین حل نظر آتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پڑھایا جائے دشمن کے بچے کو؟ ہمارے پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الہیٰ نے چارج لیتے ہی قرآن بورڈ بحال کر دیا۔ قران ناظرہ/ترجمہ سکول تو ایک طرف کالج میں بھی لازمی کر دیا۔ نہیں پڑھے گا تو انجینئرنگ یا میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں ملے گا تجھے!
پرویز الہیٰ بضد ہیں کہ اسلامی سکالرز پیدا کیے بغیر ملک کو معاشی اور فوجی سپر پاور نہیں بنایا جا سکتا۔ اور تو اور انہوں نے یہ بھی ٹویٹ کر دیا کہ علما کی دعاؤں سے پاکستان کے مسائل حل ہونا شروع ہو گئے ہیں! سبحان اللہ۔ لیکن لگتا ہے علما بنا وضو دعا کر رہے ہیں۔ ایک مسئلہ بھی حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا البتہ روز نت نئے مسائل ضرور پیدا ہو جاتے ہیں جن کا کوئی حل ہمارے پاس سرے سے ہوتا ہی نہیں۔ ملک دیوالیہ ہونے کے نزدیک ہے۔ پرویز الہیٰ کا عالم یہ ہے کہ صبح نہیں تو شام گیا! اگر ایسا ہی نصاب دشمن کے بچے کو پڑھانا ہے تو اسے ان پڑھ گنوار ہی رہنے دیجئے کیونکہ یہی آپ 1979 میں دشمن کے دادا اور اس کے بعد باپ کو پڑھا چکے ہیں جس کے نتیجے میں ملک کے ہر کونے میں نہ بجھنے والی آگ لگی ہوئی ہے جس کی راکھ سے خون کے دریا بہتے ہیں۔
ہو سکے تو اپنے بچوں کو بھی ایسی تعلیم سے دور رکھیں جو الف سے اللہ، ب سے بم، کاف سے کلاشنکوف، خ سے خودکش حملہ اور جیم سے جہاد کی ترغیب دیتی ہے۔ ورنہ ملک کا ہر تعلیمی ادارہ آرمی پبلک سکول پشاور بن جائے گا۔ بیسیوں بار آپ لوگ سانپ کا سر دودھ پلا پلا کر کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے پرانے وقتوں میں اتائی سائنس دان پارے کو جلا جلا کر سونا بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ انہوں نے اپنی آنکھیں جلائیں اور آپ ڈسواتے رہیں سارے معاشرے کو ان سانپوں سے با ر بار وہی گھسے پٹے تجربے دہرا کر!
Contributor
محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔