جو ناک بیٹی کے گھر سے نکلنے پر کٹ جائے، اسے کٹوا ہی دیجئے

جو ناک بیٹی کے گھر سے نکلنے پر کٹ جائے، اسے کٹوا ہی دیجئے
اس سال خواتین کے عالمی دن کا تھیم "بیلنس فار بیٹر" ہے۔ یعنی دنیا کے اچھے مستقبل کیلئے صنفی بنیادوں پر ہر شعبے اور عام زندگی میں برابری۔ ہر سال 8 مارچ کوخواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ورکنگ وومن بالخصوص اس دن کا اہم حصہ ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں خواتین کی خدمات کے اعتراف میں اس دن کو منایا جاتا ہے۔ پچھلی صدی کے اوائل میں اس دن کو باقاعدہ منانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

پاکستان میں خواتین کے حقوق کی صورتحال

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق 2018 میں پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد، غیرت کے نام پر قتل، عصمت دری، تیزاب پھینکے جانے کے واقعات اور جبری شادی کے واقعات میں اضافہ ہوا اور خواتین کے مسائل کے حوالے سے یہ ابھی بھی پاکستان کے سنجیدہ مسائل ہیں۔ قصور میں ننھی بچی زینب کو آبرو ریزی کے بعد قتل کا معاملہ ہو یا فیصل آباد ڈسٹرکٹ میں 19 سالہ مہوش کا رشتے پر انکار کرنے کی پاداش میں قتل، گذشتہ برس پاکستان میں خواتین کے خلاف اس طرح کے واقعات عام رہے۔ صرف فیصل آباد ڈسٹرکٹ میں گذشتہ برس کے پہلے 6 ماہ میں 66 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 21 فیصد خواتین کی شادی کم عمری یعنی 18 برس سے قبل ہو جاتی ہے۔ بچیوں کو سکول بھیجنے کی شرح بھی لڑکوں کی نسبت کم ہے جبکہ ہر روز 75 بچیوں کی ساتھ جسمانی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات پیش آتے ہیں۔

خواتین کے حوالے سے ہمارے منافقانہ رویے

ہمارے یہاں زیادہ تر آبادی کا خیال ہے کہ خواتین کے حقوق پر بات کرنا مغربی ایجنڈا ہے اور زیادہ تر لوگوں کے خیال میں خواتین کا عالمی دن منانا وقت کو ضائع کرنا اور مغربی تہوار منانے کے مترادف ہے جس سے ہماری ثقافت یا مذہب کا کچھ لینا دینا نہیں۔ جو چیز ہمارے یہاں ہمیشہ ہی نظر انداز ہو جاتی ہے وہ عورت کا تشخص، اس کے وجود کی اہمیت اور اس کی زندگی ہے۔ دنیا بھر میں خواتین کے حوالے سے عالمی سطح پر دن منانے کا مقصد عورت کی دنیا میں خدمات کا اعتراف اور اس کے وجود کی کسی بھی دوسرے ذی روح کی مانند اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ ہم کیونکہ گند صاف کرنے کے بجائے کارپٹ کے نیچے جمع کر کے گندگی چھپانے کے شوقین ہیں اس لئے ایسے عالمی دن ہماری سوچ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پاتے۔ اور ہم اپنے آپ کو یہ دھوکہ دے کر تسلی کر لیتے ہیں کہ یہ عالمی دن خواتین کو بے حیا بنانے کیلئے منایا جاتا ہے وگرنہ جتنی آزادی ہمارے مذہب یا معاشرے نے عورت کو دی ہے وہ مثالی ہے۔ حالانکہ صورتحال اس سے یکسر مختلف ہے۔ بچی کے پیدا ہونے سے لے کر اس کے جنازے تک ہمارا معاشرہ قدم قدم پر "پردہ"، "غیرت"، "مذہب"، "روایات" کے نام پر اس کے احساسات اور خیالات کو کچلتا رہتا ہے۔ آج اکیسویں صدی میں بھی ہمارے یہاں عورت کے "وجود " کو ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ پیدا ہوتے ہی اس کے دماغ میں یہ بات گھسا دی جاتی ہے کہ اس کی زندگی کا واحد مقصد نسل انسانی کی افزائش کے مقصد کے حصول میں مرد کی باندی بن کر جینا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=E32sWYBc4NE

’مرد ساری زندگی اسی آغوش کو ڈھونڈتا رہتا ہے جس میں پہلی دفعہ وہ آنکھ کھولتا ہے‘

آفرین ہے ان تمام مذہبی اور ثقافتی ٹھیکیداروں پر جو بڑے رعب اور دبدبے کے ساتھ عورت کے حقوق اور مقام کا مذہب اور سماج کے سانچوں میں تعین کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ خود اپنی پیدائش سے لے کر ہوش سنبھالنے تک عورت کے قدم قدم پر محتاج مرد حضرات جب اس کی زندگی کے مالک بن بیٹھیں اور اپنے لئے معیار الگ اور عورت کیلئے الگ رکھیں تو تعجب اور حیرت ہوتی ہے۔ ہم آنکھ ایک عورت کی گود میں کھولتے ہیں اور اس کی آغوش میں دنیا کی سختیوں اور نرمیوں کو پرکھنے کی صلاحیتیں پیدا کرتے ہیں۔ لیکن جونہی بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ہمیں غیرت اور بے حیائی کا سبق یاد آ جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ قحبہ خانوں میں جانے والے جنسی تسکین کے حصول کی خاطر نشے میں دھت حضرات ہوں، دن بھر کے تھکے مارے ملازمت پیشہ یا تاجر افراد ہوں یا پردے کے نام پر عورت کو گھر میں قید کر کے رکھنے والے افراد، سب کو دنیا کی تلخ حقیقتوں اور زندگی کی کڑواہٹ سے وقتی طور پر نجات ایک عورت کی آغوش میں ہی آ کر نصیب ہوتی ہے۔



جدید نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائیڈ نے بہت عرصہ قبل اس بات کو اپنی تھیوری میں بیان کر دیا تھا کہ مرد ساری زندگی اسی آغوش کو ڈھونڈتا رہتا ہے جس میں پہلی دفعہ وہ آنکھ کھولتا ہے۔

وطن عزیز میں آج بھی اس بات پر غور و خوص ہو رہا ہے کہ کیسے سماج میں بسنے والی خواتین کو باندی بنا کر رکھا جائے

دنیا بھر میں اس سال خواتین کے عالمی دن  کا تھیم "بیلنس فار بیٹر" ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں صنفی بنیادوں پر کہیں کوئی تفریق نہیں ہو گی اور زندگی کے ہر شعبے میں مرد اور عورت مساوی کردار ادا کریں گے۔ اور ایک طرف ہمارا وطن عزیز ہے جہاں آج بھی اس بات پر غور و خوص ہو رہا ہے کہ کیسے سماج میں بسنے والی خواتین کو باندی بنا کر رکھا جائے۔ کس طرح سے مرد کی حاکمیت کے فرسودہ خیالات و تصورات کو زندہ رکھا جائے۔

https://www.youtube.com/watch?v=HiqJhL-4N64

پڑھے لکھے طالبان جو دانشور بھی بن بیٹھے ہیں

خواتین کے حقوق پر دشنام طرازیاں کرتے پڑھے لکھے طالبان مائنڈ سیٹ والے خود ساختہ دانشوروں سے لے کر مذہبی و سیاسی گدھ سب عورت کو کمزور ثابت کرنے کیلئے جس مذہب کی روایات کا سہارا لیتے ہیں خود اس پر ایک فیصد بھی عمل نہیں کرتے۔ خود ہم سب بھی ابھی تک زمانہ جاہلیت میں بستے ہیں بچے کی پیدائش پر ہماری چھاتی چوڑی ہو جاتی ہے اور بچی کی پیدائش پر ہمارے کاندھے ڈھلک جاتے ہیں۔ بچے کو اپنا پیٹ کاٹ کر مہنگے سے مہنگے سکول کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخل کرواتے ہیں۔ لیکن بچیوں کو عام سے سکولوں کالجوں میں پڑھوا کر مطمئن ہو جاتے ہیں، کہ آج بھی زیادہ تر افراد کی سوچ یہ ہے کہ بچیوں نے پڑھ لکھ کر آخر کو کرنا ہی کیا ہے گھر بار ہی تو سنبھالنا ہے، اس لئے بس تعلیم کا خانہ پر کرواؤ تاکہ اچھا رشتہ آ سکے۔



لڑکا پوری رات گھر سے باہر جو مرضی کرتا پھرے اس کو سب معاف لیکن بچی کو ذرا سی دیر باہر سے آتے ہوئے ہو جائے تو۔۔۔

اسی طرح لڑکا اگر شادی کرنا چاہے تو بلے بلے، یہی خواہش اگر کوئی بچی کر بیٹھے تو غیرت کو ٹھیس، مذہب اور ثقافت کو خطرہ، برادری میں ناک نیچی۔ جہیز کی فرمائش سے لے کر دھوم دھڑکے سے لڑکے کی شادی اور لڑکی کی دفع سادگی، کفایت شعاری اور جہیز ایک لعنت جیسے نعرے اور بہانے۔ لڑکا پوری رات گھر سے باہر جو مرضی کرتا پھرے اس کو سب معاف لیکن بچی کو ذرا سی دیر باہر سے آتے ہوئے ہو جائے تو اس کی دھلائی اور بے عزتی۔

https://www.youtube.com/watch?v=CrO_lqv_tpQ

غرض ہر رنگ اور ہر روپ میں منافقانہ اور غاصبانہ طریقوں سے دھونس دھاندلی کر کے خواتین کو ہم ڈھور ڈنگر سمجھ کر دباتے ہی جاتے ہیں۔ فہم سے بالاتر ہے کہ عورت کیا انسان نہیں ہے؟ کیا وہ سانس نہیں لیتی؟ کیا وہ ارمان جذبات اور خواہشات نہیں رکھتی؟ اگر تو اس کو محض مرد کی خواہشات اور آسودگی کی تکمیل کیلئے دنیا میں بھیجا ہے گیا تو پھر قدرت اسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ہی نہ دیتی۔ لیکن کیونکہ ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ ہم سوچنے کا یا عقل استعمال کرنے کا کشٹ کبھی بھی نہیں کریں گے اس لئے کسے فرصت کہ اس بات پر سوچے؟

"مرد نے عورت کے ساتھ ابھی صرف سونا ہی سیکھا ہے جاگنا نہیں"

ویسے بھی ہمارے یہاں بقول امرتا پریتم مسئلہ دراصل یہ ہے کہ "مرد نے عورت کے ساتھ ابھی صرف سونا ہی سیکھا ہے جاگنا نہیں"۔ جس دن ہم عورت سے شہوانی لذت حاصل کرنے کے مختلف طریقے دریافت کرنے کے بجائے اس امر کا ادراک کر لیں گے کہ عورت سانس لیتی ہے، خواب دیکھتی ہے اور سوچ و تخیلات میں ہم سے کسی بھی طرح کم نہیں اس دن شاید ہم خواتین کو نہیں بلکہ اپنے معاشرے کو مضبوط کر لیں گے۔

https://www.youtube.com/watch?v=H92K-1M-ZAw

ہماری ناک غیرت کے نام پر اپنی ہی بچیوں کو روز قتل کرنے پر متاثر ہوتی ہے نہ کہ بچیوں کے آسکر یا نوبل پرائز جیتنے پر

ہمیں یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ غیرت بچیوں کو تعلیم نہ دلوانے ان کی جبری شادیاں کروانے ان کو ملازمت نہ کرنے دینے سے متاثر ہوتی ہے نہ کہ ان کو پڑھانے لکھانے اور پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی میں گھر سے باہر بھیجنے سے۔ بے حیائی بچیوں کے ارمانوں اور خوابوں کا گلا گھونٹنا ہوتی ہے، نہ کہ ان کے ارمانوں اور خوابوں کو پورا کرنا۔ اونچی ناک والوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عالمی برادری میں ہماری ناک غیرت کے نام پر اپنی ہی بچیوں کو روز قتل کرنے پر متاثر ہوتی ہے نہ کہ بچیوں کے آسکر یا نوبل پرائز جیتنے پر۔ جنہیں عورت ذہنی طور پر کمتر لگتی ہے انہیں اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ بینظیر بھٹو، فاطمہ بھٹو، مریم نواز، فاطمہ جناح، پروین شاکر، نرگس موالوالہ، ارفع کریم، فہمیدہ ریاض، عاصمہ جہانگیر، ملالہ یوسفزئی، ثنا میر، میڈم نور جہاں، یہ سب بھی خواتین ہیں اور ان کی صلاحیتوں کا لوہا پوری دنیا مانتی ہے۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں معیشت کا پہیہ بھی خواتین کی شرکت کے بنا نہیں چل سکتا۔ اب ضرورت ہے کہ ہم اپنا سماجی بیانیہ تبدیل کریں اور خواتین کے وجود سے انکار کرنے کے بجائے ان کے وجود کو تسلیم کریں۔ ویسے بھی ہمارے ڈینائل سے خواتین کا اپنا وجود ختم نہیں ہو سکتا۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔