آصف زرداری مفاہمت کے نہیں، مفاد کے بادشاہ ہیں

2008 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن نے صرف ایک شرط رکھی تھی کہ مشرف کے برطرف کئے گئے ججز 40 دن میں بحال کیے جائیں گے۔ یوں پیپلز پارٹی کی حکومت بن گئی لیکن بعد میں زرداری صاحب معاہدے سے مکر گئے اور کہا کہ وعدے اور معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔ اس وعدہ خلافی کے نتیجہ میں مسلم لیگ ن حکومت سے نکل گئی۔

آصف زرداری مفاہمت کے نہیں، مفاد کے بادشاہ ہیں

سیاست دانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد زرداری صاحب کو ذہین اور مفاہمت کا بادشاہ مانتی ہے۔ ان میں چند قابل احترام صحافی حضرات بھی شامل ہیں لیکن میرے ذاتی خیال میں ایسا نہیں ہے۔ آئیے زرداری صاحب کی ماضی کی سیاست کا جائزہ لے کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہے یا حقیقت کچھ اور ہے۔

محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت زرداری صاحب کے حصے میں آئی اور ان کا ہر فیصلہ پارٹی کا فیصلہ تسلیم کیا گیا۔ 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں کوئی بھی جماعت اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ تنہا حکومت بنا سکے۔ سیٹوں کی تعداد کے لحاظ سے پیپلز پارٹی پہلے اور مسلم لیگ ن دوسرے نمبر پر آئی تھی۔

زرداری صاحب نے نواز شریف صاحب کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کا فیصلہ کیا اور اسے باقاعدہ معاہدے کی شکل دی گئی۔ مسلم لیگ ن نے صرف ایک شرط رکھی تھی کہ مشرف کے برطرف کئے گئے ججز 40 دن میں بحال کیے جائیں گے۔ یوں پیپلز پارٹی کی حکومت بن گئی لیکن بعد میں زرداری صاحب معاہدے سے مکر گئے اور کہا کہ وعدے اور معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔ اس وعدہ خلافی کے نتیجہ میں مسلم لیگ ن حکومت سے نکل گئی اور زرداری صاحب نے اس ق لیگ کو حکومت میں شامل کر لیا جس کو وہ محترمہ کی شہادت کے بعد سے قاتل لیگ قرار دے رہے تھے۔ یہ سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت زرداری صاحب کی مفاہمت کہاں چلی گئی تھی؟

پنچاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے۔ زرداری صاحب نے پہلے سلمان تاثیر اور بعد میں لطیف کھوسہ کو پنجاب کا گورنر بنایا۔ یہ دونوں حضرات میاں نواز شریف کے شدید مخالفین میں شمار ہوتے تھے۔ ان دونوں تعیناتیوں پر مسلم لیگ ن نے احتجاج کیا لیکن زرداری صاحب ان حضرات کو تبدیل کرنے پر رضامند نہ ہوئے۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اس وقت زرادی صاحب کی مفاہمت کہاں چلی گئی تھی؟

2013 کے انتخابات کے نتیجے میں مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنی اورجب نواز شریف صاحب نے رانا مقبول کو آئی جی سندھ لگانا چاہا تو زرداری صاحب نے سخت احتجاج کیا۔ وہ یہ بات بھول گئے کہ خود انہوں نے اپنے دور میں پنجاب میں مسلم لیگ ن کے شدید مخالفین کو گورنر لگایا تھا۔ واضح رہے کہ گورنر، چیف سیکرٹری اور آئی جی لگانے کا اختیار مرکز کے پاس ہوتا ہے۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اس وقت زرداری صاحب کی مفاہمت کہاں چلی گئی تھی؟

2018 میں جب چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو زرداری صاحب نے صادق سنجرانی کی حمایت کا فیصلہ کیا حالانکہ میاں صاحب نے رضا ربانی کا نام تجویز کیا تھا جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہی تھا لیکن اس وقت زرداری صاحب پر مہربانوں کی حمایت حاصل کرنے کا بھوت سوار تھا اس لئے انہوں نے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ منتخب کرانے میں مہربانوں کا پورا ساتھ دیا۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اس وقت مفاہمت کہاں چلی گئی تھی؟

میاں صاحب کی وطن واپسی کے بعد سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین جس طرح سے مسلم لیگ ن اور خاص طور پر میاں نواز شریف کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں، کیا اس پر بھی نہیں پوچھا جا سکتا کہ زرداری صاحب کی مفاہمت کہاں چلی گئی؟

میں ایک مدت سے زرداری صاحب کے سیاسی کرتب دیکھ رہا ہوں اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ زرداری صاحب دوراندیش ہیں اور نہ ہی ذہین، بلکہ وہ ہر وقت اپنے اور اپنی پارٹی کے مفاد کے لئے کوئی بھی سودا کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ ایسے شخص کو ذہین یا مفاہمت کا بادشاہ نہیں بلکہ مفاد پرست کہا جاتا ہے۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔