مسیحی خاتون آسیہ بی بی جسے توہین مذہب کے الزام میں آٹھ برس سلاخوں کے پیچھے بتانے پڑے اب مکمل آزاد ہو جائے گی کیونکہ سپریم کورٹ نے اس کی بریت کے خلاف نظر ثانی کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ اس فیصلے کا انسانی حقوق کے کیلئے سرگرداں کارکنوں نے خیر مقدم کیا ہے لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہو پایا کہ کیا ان افراد کے خلاف بھی کسی قسم کی کارروائی کی جائے گی جنہوں نے آسیہ پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگایا اور جھوٹی گواہیاں دے کر عدالت اور عوام کو گمراہ کیا۔ سپریم کورٹ کے بینچ نے درخواست گزار کے وکیل کو لاجواب کرتے ہوئے چند اہم ریمارکس دیے تھے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے گواہان کی جھوٹ بولنے پر سرزنش کی اور کہا کہ اگر یہ مقدمہ حساس نوعیت کا نہ ہوتا تو انہیں عمر بھر کیلئے قید کی سزا سنائی جا سکتی تھی۔
قاری سلیم جو علاقے کا مولوی تھا اور آسیہ بی بی کے خلاف توہین مذہب کا مرکزی شکایت گزار تھا، اس نے قران کریم پر ہاتھ رکھ کر آسیہ پر جھوٹا الزام لگایا جس کے نتیجے میں اس بے گناہ خاتون کو ایک ناکردہ گناہ کے جرم میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے آٹھ برس بتانے پڑے۔ چیف جسٹس آصف کھوسہ نے یہ بھی کہا کہ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آسیہ کے خلاف لگائے گئے الزامات کبھی بھی ثابت نہیں ہوئے۔ انہوں نے تحریک لبیک کے رہنماؤں پر بھی تنقید کی جنہوں نے آسیہ بی بی کو بری کرنے پر سپریم کورٹ کے جج حضرات کے خلاف فتوے جاری کیے تھے۔ چیف جسٹس نے اس بات پر بھی تاسف کا اظہار کیا کہ تحریک لبیک نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کے طور پر پورے ملک کو مفلوج کر دیا تھا۔
https://www.youtube.com/watch?v=BAOj7D5KUbo
چیف جسٹس کے ان تبصروں سے یہ امید پیدا ہو چلی ہے کہ توہین مذہب کے غلط استعمال اور جھوٹی گواہیوں کے مسائل کو اب حل کیا جائے گا۔ توہین مذہب کے قانون کو اکثر اقلیتوں کے استحصال اور ذاتی عناد کی تسکین کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اب جبکہ معزز عدالت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اقلیت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کو انصاف کے نظام میں خرابی کے باعث اور جھوٹی گواہیوں کو نہ پرکھ پانے کی وجہ سے آٹھ سال جیل میں گزارنا پڑے، تو عدالتی نظام کا رخ درست سمت میں متعین کرنے کی اب اشد ضرورت ہے۔
ماہر قانون خالد رانجھا کا کہنا ہے کہ مقدمے کی آخری سماعت کے دوران جج حضرات کے تبصروں سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ بنچ جھوٹی گواہیوں پر برہم تھا "لیکن درخواست گزار کے وکیل کو بے عزت کرنا کافی نہیں تھا"۔ خالد رانجھا کہتے ہییں کہ "یہ انتہائی مناسب ہوتا اگر سپریم کورٹ مقدمے کو ٹرائل کورٹ میں بھیج دیتی تاکہ جھوٹے گواہوں کو منطقی انجام تک پہنچایا کیا جا سکتا۔ متبادل طور پر استغاثہ بھی ایسا کر سکتی تھی۔ جھوٹے گواہوں کو اسی قانون کے تحت سزا دینا بیحد ضروری ہے کیونکہ اس سے ایک روایت قائم ہو جائے گی"۔
خالد رانجھا کا مزید کہنا تھا کہ اگر آسیہ بی بی کا وکیل اس مسئلے کو اٹھاتا ہے اور آسیہ پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے والوں پر توہین کا مقدمہ درج کرواتا ہے تو عدالتیں اخلاقی طور پر اس بات پر مجبور ہوں گی کہ وہ آسیہ بی بی پر جھوٹے الزامات لگانے والوں کو سزائیں دیں"۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ توہین مذہب کے جھوٹے الزامات کا شکار ہونے والے افراد اپنی بریت کے بعد بھی جھوٹا الزام لگانے والوں کو چیلنج نہیں کرتے، لیکن آسیہ بی بی کے مقدمے کو بین الاقوامی شہرت ملی ہے اس لئے یہ غلط کو درست کرنے کا بہترین موقع ہے۔
خالد رانجھا نے آخر میں کہا کہ "جب توہین الزام کے جھوٹے الزام کا شکار افراد بری ہو جاتے ہیں تو وہ جھوٹی گواہیوں کے مسئلے کو نہیں اٹھاتے، لیکن آسیہ بی بی کا مقدمہ ایک ایسے موقع کے طور پر استعمال کرنا چاہیے جس کے ذریعے مروجہ نظام کو تبدیل کیا جائے اور ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی جا سکے۔ وہ تمام افراد جنہوں نے آسیہ بی بی پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر عدالت کو گمراہ کیا اگر انہیں سزا سنا دی جائے، تو اس اقدام سے توہین مذہب کے قانون کو غلط طور پر استعمال کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو گی"۔
مصنفہ نیا دور سے منسلک ہیں، کاؤنٹر ٹیرر ازم، انسانی حقوق اور اظہار کی آزادی ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ ٹوئٹر پر @ailiazehra کے ہینڈل پر اور ailiazehra2012@gmail.com پر ای میل کے ذریعے ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے