جب اگست میں افغان طالبان کابل میں اقتدار میں واپس آئے تھے تو پاکستانی بڑے خوش تھے۔ خود وزیر اعظم عمران خان طالبان کی واپسی کو پاکستان کی فتح کے طور پر دیکھ رہے تھے۔
سالوں سے تجزیہ نگار اسلام آباد پر طالبان کی مدد کا الزام لگاتے آئے ہیں۔ اور سالوں سے پاکستان ان الزامات کو مسترد اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران خود کو امریکہ کے اتحادی کے طور پر پیش کرتا آیا ہے۔ اس کے باوجود عمران خان نے عملی طور پر پاکستان کے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کی تصدیق کر دی جب انہوں نے طالبان کے کابل پر قبضے کی کھل کر حمایت کی – حالانکہ یہ قبضہ طالبان کے امریکہ کے ساتھ دوحہ، قطر میں ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی تھا۔
عمران خان حکومت واضح طور پر افغان طالبان سے اس حمایت کے بدلے دو چیزوں کی توقع لگائے بیٹھی تھی: افغانستان میں موجود پاکستان کے خلاف جنگ میں مصروف عناصر کو پاکستان کے حوالے کیا جائے گا اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تنازع حل کیا جائے گا۔
اب تک دونوں میں سے ایک بھی توقع پوری نہیں ہوئی۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے تاحال افغان حکومت کو سفارتی قبولیت نہیں بخشی۔
اس راستے میں سب سے بڑا پتھر تحریکِ طالبان پاکستان ہے جو کہ افغان طالبان کا ہی ایک حصہ تھی اور آج بھی پاکستانی فورسز سے حالتِ جنگ میں ہے۔ پاکستان کوشش کر رہا ہے کہ افغان طالبان اس گروپ کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں۔ کابل میں طالبان کی واپسی کے بعد پاکستانی حکومت کے کچھ اعلیٰ عہدیداروں نے رضامندی ظاہر کی تھی کہ اگر پاکستانی طالبان ہتھیار ڈال کر آئینِ پاکستان کو تسلیم کر لیں تو انہیں عام معافی دی جا سکتی ہے۔ نومبر میں، تحریکِ طالبان پاکستان نے خفیہ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر کے ایک مہینے کے لئے جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ جب اسلام آباد نے یہ مذاکرات شروع کیے تو میں نے اسی کالم میں لکھا تھا کہ یہ ساتویں مرتبہ پاکستانی ریاست پاکستانی طالبان سے بات چیت کر رہی ہے۔ اور پچھلے چھ کے چھ سمجھوتے ناکام ہوئے ہیں۔
TTP نے مشکل شرائط سامنے رکھیں۔ اس کے لیڈران نے بڑی تعداد میں اپنے کارکنان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ یہ واضح نہیں کہ پاکستان نے یہ مانگ پوری کی یا نہیں۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ کسی تیسرے ملک میں ایک دفتر کھولنا چاہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا کہ ایک اور ملک پاکستان میں موجود طالبان کو سفارتی قبولیت بخشتا۔ سب سے زیادہ پریشان کن شرط جو انہوں نے سامنے رکھی وہ پاکستان میں شریعت کا اطلاق تھا – یعنی وہ موجودہ جمہوری آئین کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ عملی طور پر TTP مطالبہ کر رہی تھی کہ ریاست خود ہی اپنے آپ کو ختم کر دے – جو کہ عملی طور پر ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہی ہوتا۔
اس کے باوجود حکومتی وزرا دعویٰ کرتے رہے کہ TTP جنگ بندی پر راضی ہو گئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمان میں اس خفیہ معاہدے کو سامنے لانے کا مطالبہ کیا۔ ججز کے ایک پینل نے میڈیا کے سامنے عمران خان سے اس متعلق استفسار کیا۔
10 دسمبر کو TTP نے جنگ بندی ختم کر دی اور پاکستان کے خلاف اپنی کارروائیاں پھر سے شروع کر دیں۔ پاکستانی فوج نے TTP لیڈران کو افغانستان میں ڈرون حملوں کا نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ جواب میں TTP نے اسلام آباد میں پولیس پر حملے کیے۔ وہ یہ پیغام دے رہے تھے کہ وہ پاکستان میں گوریلا جنگ شروع کرنے کے لئے تیار تھے۔ حکومت پہلے ہی سکیورٹی معاملات میں الجھی ہوئی تھے، اس نے فیصلہ کیا کہ مذاکرات دوبارہ شروع کیے جائیں۔ لیکن تاحال کوئی نتائج سامنے نہیں آئے۔ یاد رہے کہ افغان طالبان نے اس تمام عرصے میں پاکستان کے حق میں مداخلت کی کوئی کوشش نہیں کی۔
اور سرحدی تنازع کا کیا بنا؟ نئی افغان حکومت نے اسلام آباد کے خدشات پر قطعاً کان نہیں دھرے۔ افغان طالبان نے واضح طور پر دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ سرحد کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ یہ سرحد نوآبادیاتی دور میں انگریز کی بنائی ہوئی سرحد ہے جو اس کے دونوں اطراف رہنے والے پشتونوں کو علیحدہ کرتی ہے۔ طالبان سپاہیوں نے پاکستانی فوجیوں کو اس سرحد پر باڑ لگانے سے روکنے کی بھی کوشش کی ہے۔ افغان طالبان نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اس بارڈر پر 30 پوسٹس بنائیں گے تاکہ سرحد پر پاکستانی فوجوں کی نقل و حمل کو روک سکیں۔
مختصر یہ کہ افغان طالبان اب ایسے برتاؤ کر رہے ہیں جیسے وہ بہت بڑے آزادی کے علمبردار تھے جنہوں نے بغیر کسی کی بھی مدد کے تن تنہا افغانستان کو غیر ملکی قبضے سے آزاد کروایا۔ وہ پاکستان کی سالوں سے جاری مخفی و غیر مخفی حمایت کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کرتے ہیں۔ اگر پاکستانی لیڈران اظہارِ تشکر کی امید لگائے بیٹھے تھے تو اب تک انتظار میں ہی بیٹھے ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ افغان طالبان پاکستان پر اعتبار نہیں کرتے۔ دونوں ماضی میں ایک دوسرے سے ڈبل گیم کھیلتے رہے ہیں۔ اب طالبان انڈیا اور ایران کے ساتھ رابطے بڑھا رہے ہیں۔ وہ اپنی نئی ریاست کے لئے عالمی قبولیت چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بیرون ملک بینکوں میں پڑے افغانستان کے پیسے ریلیز کیے جائیں – لیکن وہ بین الاقوامی کمیونٹی کی شرائط ماننے کو تیار بھی نہیں۔ حال ہی میں ان کے پاس عالمی برادری کا دل جیتنے کا موقع آیا تھا جب وہ گذشتہ ماہ آسلو میں تین دن کے لئے مغربی عہدیداروں سے ملے۔ لیکن انہوں نے اس کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ انہوں نے سماجی حقوق کی تین خواتین کارکنان کی گمشدگی میں کردار کی تردید کی جب کہ تینوں کے خاندان واضح طور پر طالبان ہی پر الزام عائد کر رہے تھے۔ افغانستان میں موجود طالبان حکومت اگر خود کو بدلے گی نہیں تو مغرب سے اس کے تعلقات بہتر ہونے کی امید کم ہے۔
لیکن طالبان کسی کی نہیں سن رہے – پاکستان کی بھی نہیں جس نے بہت سے ممالک کی ناراضگی مول لے کر بھی اندھوں کی طرح کئی سال طالبان کی حمایت کی۔ اتوار کو TTP نے پاکستان کے پانچ فوجی مار دیے – اور سرِ عام ذمہ داری بھی قبول کی۔ پاکستان کی برداشت ختم ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کب تک حقیقت کو نظر انداز کرتا رہے گا؟
حامد میر کا یہ مضمون واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔
حامد میر پاکستان کے مایہ ناز صحافی، کالم نگار اور اینکر پرسن ہیں۔ وہ واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھتے ہیں۔