دنیا کے بے شمار ممالک نے دہشت گردی کے عفریت کا سامنا کیا ہے جیسے کہ امریکہ، پاکستان، برطانیہ، شام، افغانستان، عراق وغیرہ اور کچھ ان میں سے ابھی بھی اس کا سامنا گاہے بگاہے کرتے رہتے ہیں۔ اگر صرف پاکستان کا ہی تذکرہ کروں تو بیرونی عناصر کی مداخلت اور اپنوں کی گمراہی، لالچ، انصاف کی عدم دستیابی (یہ ان دہشت گرد عناصر کے مطابق ہے)، اور بعض صورتوں میں اسلام کی خود ساختہ تشریح ان واقعات کا سبب بنی ہے۔
سب سے پہلے تو میری ذاتی رائے کے مطابق کسی بھی بے گناہ انسان کو قتل کر کے دوسرے لوگوں کو خوفزدہ کرنے والا دہشت گرد کہلاتا ہے اور دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا چاہے وہ خود کو مسلمان کہے یا عیسائی یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو کیوں کہ سب مذاہب امن، اور رواداری کی تعلیم دیتے ہیں۔
پاکستان میں دہشتگردی کی باقاعدہ شروعات پاکستانی تاریخ کے بدترین آمر ضیاالحق کے دور سے شروع ہوئی، جب ضیا نے افغان جہاد میں حصہ لینے کا اعلان کیا اور یوں پاکستان میں افغانستان سے اسلحہ، بارود اور ہیروئن کی وافر مقدار میں ترسیل شروع ہو گئی۔ اس ترسیل کے ساتھ ہی جہاں نوجوان نسل کا بیڑہ غرق ہونا شروع ہوا، وہاں ملک دشمن طاقتوں کو بھی کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا۔
ضیا کے بدترین اور سیاہ آمریت کے دور کے بعد دن بدن دہشتگردی میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور ملک دشمن عناصر زیادہ تر افغانستان کے ذریعہ اور کبھی کبھار ایران کے ذریعہ آتے رہے۔ 11 ستمبر 2001 میں القاعدہ کے امریکہ پر دہشت گرد حملوں کے بعد جہاں دنیا کے کئی دوسرے ممالک جیسے کہ افغانستان، لیبیا، عراق وغیرہ متاثر ہوئے۔ وہاں پاکستان پر بھی اس کا گہرا اثر پڑا اور اس وقت کے آمر پرویز مشرف نے امریکہ کے دہشت گردوں کے خلاف اس جنگ میں ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
اس دوران جب افغان جہادی بشمول القاعدہ سے تعلق رکھنے والے، افغانستان سے بھاگ کر پاکستان کے سرحدی علاقوں میں آ کر چھپے تو امریکہ نے پاکستان میں ڈرون استعمال کر کے ان کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ مزید برآں پاکستان میں دینی مدرسوں کی رجسٹریشن کے بارے میں سختی شروع کی گئی اور لال مسجد اسلام آباد کی انتظامیہ کا بھی حکومت وقت سے تنازعہ بڑھا اور دونوں طرف سے کئی دن فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا۔ ان سب عوامل کے ردعمل کے طور پر ملک میں دہشت گردی کا سیلاب آ گیا۔ یہ تو چند ایک مذہبی عوامل تھے جن کو ہوا دے کر دہشت گردوں نے اپنی کارروائیاں شروع کیں یا جن کے ردعمل کے طور پر ایسی کارروائیاں وقوع پذیر ہوئیں۔
دوسری طرف چند ایک علحیدگی پسند یا لسانی تنظیموں نے بھی مذموم کارروائیاں شروع کر دیں اور ان میں ان تنظیموں کو کھلم کھلا دشمن ملک کی ایجنسی کی حمایت حاصل ہے۔ اس کی مثال کراچی میں ایم کیو ایم لندن کی دہشتگرد کارروائیاں اور ملک کے بیشتر حصوں میں بلوچستان لبریشن آرمی نامی بلوچ علیحدگی پسند تنظیم کی مذموم کارروائیاں شامل ہیں۔
دسمبر 2014 میں جب آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشتگردوں نے معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی تو اس وقت کے آرمی چیف نے حکومت کے تعاون اور سرپرستی سے دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب اور ضرب آہن جیسے آپریشن کیے، جس میں ان دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی۔اس کے بعد سے اب تک دہشت گردی بہت کم ہو گئی ہے مگر ابھی بھی ملک دشمن عناصر کو جب کبھی موقع ملے تو وہ ملک میں موجود ضمیر کا سودا کرنے والے وطن فروشوں سے ملکر کوئی نہ کوئی بزدلانہ کارروائی کر دیتے ہیں۔
پچھلے دنوں کراچی سٹاک ایکسچینج پر دہشت گردی کا بزدلانہ وار کر کے بڑی تباہی کرنے کی کوشش کی گئی اور اس حملے کی ذمہ داری علحیدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی نے قبول کر لی مگر اللہ کا شکر ہے کہ ان کا بزدلانہ وار زیادہ تباہی پھیلانے میں ناکام رہا اور گیٹ پر موجود سیکورٹی پر مامور 3/4 افراد کی شہادت (جو کہ ان کے دلیرانہ طور پر دہشتگردوں کو روکنے کی کوشش میں ہوئی) اور سیکورٹی فورسز کے دیگر افراد کی بروقت کارروائی عمارت میں موجود افراد کی زندگی کی ضامن بنی۔
دہشت گردوں کو تو جب اور جہاں موقع ملے وہ پیسے کے لیے، لسانی یا مذہبی بنیادوں پر ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے اپنے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لیے ایسی بزدلانہ کارروائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ایسے موقع پر ہمیں بحیثیت عوام متحد ہو کر ایسی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے، اپنی سیکورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ان کا حوصلہ بڑھانا چاہیے اور اپنے اردگرد کے ماحول میں موجود مشکوک افراد پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔