اقتدار کی حقیقت یہ ہے کہ صاحب مقتدر شخص صرف کرسی نشیں نہیں ہوتا بلکہ اسکی حیثیت ایک ایسے پاسباں کی ہوتی ہے جو اپنی قوم کی مجموعی ذمہ داری اپنے توانا کندھوں پر اٹھاتا ہے۔ ہمارا طرز حکومت جمہوری ہے جو کہ پارلیمانی نظام پر مشتمل ہے۔ پارلیمانی امور کی سربراہی اس جماعت کے سر ہوتی ہے جسے عوامی نمائندگی سب سے زیادہ ملتی ہے۔
منتخب امیدوار بھاری بھرکم ووٹ لیکر پارلیمنٹ پہنچتا ہے۔ پارلیمنٹ کا حصہ بننے والا ہر شخص با اختیار طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ طبقہ پہلے سے ہی مراعات یافتہ ہوتا ہے۔ اس طبقے کے طبعی خواص یہ ہیں کہ یہ غریب پروری ، انسانیت دوستی، اور عوام کی فلاح کے بلند نعروں کی پالکی میں بیٹھ کر پارلیمنٹ پہنچتا ہے۔ اب ذرا غور سے اس پورے منظر کو دیکھا جائے تو یہ بات یقینی طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ بر سر اقتدار طبقہ وہ اپاہج طبقہ ہے جسے اقتدار کیلئے عوام کی بیساکھیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔عوام اور سیاستدان ایسے گردشی سیارے ہیں جنہیں گھوم پھر کر ہر پانچ سال بعد دوبارہ اکٹھا ہونا ہوتا ہے۔
لیکن ٹھہرئیے! پارلیمنٹ میں پہنچنے سے پہلے سیاسی امیدوار کی محنت کے بارے میں نہ بتانا انتہائی بد دیانتی ہو گی۔ سیاستدان بھلے بد دیانت ہو لیکن لکھاری کا دیانت دار ہونا بہت ضروری ہے۔ تو چلئے سیاسی جلسہ گاہوں کی طرف یا پھر علاقے کے کسی بڑے شخص کے گھر جو دو اڑھائی سو ووٹوں کی دولت سے مالا مال ہے۔ یعنی سو کا ہندسہ تجاوز کرنے والے جتنے بھی علاقوں کے سربراہان ہیں وہ اپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے ( اپنے بچوں، بھتیجوں اور بھانجوں کی سرکاری نوکریوں کے لالچ میں) علاقے کے ووٹ یوں بیچ دیتے ہیں جیسے کوئی دوکاندار کسی گاہک کو شے بیچتا ہے۔ حالانکہ اس پر شکوہ دعوت کی شان وہ غریب لوگ ہوتے ہیں جنھیں دکھا کر علاقے کا سر پنچ اپنی جیبیں بھرتا ہے۔ اس رو سے غریب آدمی وہ خام سونا ہے جسے ہر پانچ سال بعد ’کندن’ بنانے کی بات کی جاتی ہے۔
عوام کی زندگی عموماً بڑے بڑے خواب دیکھنے میں گزر جاتی ہے۔ وہ خواب جو سیاسی امیدوار اسے جلسہ گاہوں میں دکھاتا ہے یا پھر کسی رئیس کے گھر چائے کی دعوت پر۔ مزیدار بات یہ ہے کہ سیاستدان اس ہنر سے بخوبی آشنا ہیں کہ جلسے میں کن عوامل پر بات کرنی ہے۔ اس لئے عوامی اجتماع سے ہمارے سیاسی لیڈر ببانگ دہل ایسے دعوے کرتے نظر آتے ہیں جنہیں سن کر عام آدمی اپنی زندگی ’اب سنور جائے گی‘ کے خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ عام آدمی سیاسی امیدوار کو اسمبلی میں پہنچا کر ان امیدوں کے پورا ہونے کے انتظار میں دن کاٹنا شروع کر دیتا ہے جن کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کہ نتیجہ ہمیشہ اسکے برعکس نکلتا ہے۔ اغراض کے یہ بندے اور خواہشات کے غلام اس طبقے کو ہمیشہ بھول جاتے ہیں جن کے پاس انھیں پانچ سال کی مدت پوری کرنے کے بعد دو بارہ لوٹ کر جانا ہے۔ وہ عوام جو پہلے اپنے راہنما کیلئے کسی قسم کی مغلظات مخالفین کے منہ سے سننا برداشت نہیں کرتی تھی اب چائے کے سٹالوں پر، گلی، چوراہوں پر اسے بد دعا اور گالیاں دینا پانچ وقت کی فرض نمازوں کی طرح اپنے اوپر واجب سمجھ لیتی ہے۔
عام آدمی اور حکمران کا ساتھ چولی دامن کا ہوتا ہے۔ یہ ساتھ ہمیشہ ایک وقت کے بعد اس مملکت عظیم میں ٹوٹ جاتا ہے۔ جیسے کوئی یکطرفہ محبت کا مارا اپنے ریزہ ریزہ ہوتے خواب چنتا رہتا ہے ویسے عوام اپنی زندگی کے بکھرے ٹکڑے چنتی رہتی ہے اور قوم کا مسیحا قوم کو روزی روٹی کی فکروں میں الجھا کر انکی زندگی سے کھلواڑ کرتا انھیں ان گنت مسائل کی جہنم میں تنہا چھوڑ کر اپنی جنت میں عیش وعشرت کے مزے لوٹتا رہتا ہے۔
ملک افراد کے مجموعے سے نہیں بلکہ قوم بننے سے پھلتے پھولتے ہیں۔ لوگوں کے باہمی اشتراک سے ممالک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ پچھلے 73 سالوں سے ہم ’قوم‘ کی کسی بھی عمرانیاتی علوم میں کی گئی ’تعریف‘ پر پورا نہیں اترے۔ یہاں امیر غریب سب اپنی اپنی اغراض کی دوکان کھولے، آنکھوں پر لالچ کی پٹی باندھے اپنے اپنے حصے کی جنت بنانے میں مگن ہیں۔ یہ ملک زمین کا وہ ٹکڑا ہے جو فکری لحاظ سے ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے۔ ہم طبقاتی گروہوں میں بٹے وہ ریوڑ ہیں جنہیں کوئی جب چاہے اپنی طرف ہانکنا شروع کر دیتا ہے۔ اور ہم ایسے مست واقع ہوئے ہیں کہ بھینس کی طرح جگالی کرتے ہوئے بلا سوچے سمجھے ہر لاؤڈ سپیکر میں بولنے والے کو اپنا رہنما مان لیتے ہیں۔ اسلئے آج تک ہم اپنا ایسا رہنما نہیں چن سکے جسے صحیح معنوں میں راہبری کا حق حاصل ہو۔
اس ملک کو ملک نہیں ماننا چاہئے جہاں قانون کی بالا دستی نہ ہو۔ اخوت، مساوات اور بھائی چارہ نہ ہو۔ طاقتور بد مست ہاتھی کی طرح جب چاہے نظم و ضبط کی دھجیاں اڑاتا ہوا آگے بڑھ جائے۔ ایسے معاشرے میں ’جسکی لاٹھی اسکی بھینس‘ والا محاورہ بزور طاقت مستعمل ہو جاتا ہے۔
حکمران طبقہ جن کے دفاتر سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں سرد رہتے ہوں وہ عام آدمی کی زندگی کو کیا سمجھیں گے؟ آقائے وقت جو اتنا لاچار ہو کہ کم سن بچوں بچیوں سے زیادتی کرنے والے کو سزا نہ دے سکے، جو عوامی امنگوں کا قاتل ہو، عوام کے مسائل سے ناواقف ہو، جس نے عام آدمی کی زندگی نہ چکھی ہو یہاں تک کہ اس نے غریبی کی دہلیز بھی کبھی پار نہ کی ہو۔ ایسا شخص کیسے ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے لائق ہے؟
وطن عزیز اس لحاظ سے بہت خوش قسمت ہے کہ اسکے عسکری ادارے اسکی حرمت پر جان نچھاور کرنے سے کسی بھی قیمت پیچھے نہیں ہٹتے۔ سرحدیں مضبوط ہو جانے سے ملک کا دفاعی ڈھانچہ مضبوط ہوتا ہے۔ رب عظیم کے کرم سے ہماری قوم کے دلیر سپوتوں نے سرحدوں سے لیکر فضا اور سمندر تک اس مملکت عظیم کو ایک آہنی قلعہ بنا دیا ہے جو کہ ہر لحاظ سے ناقابل تسخیر ہے۔ قوم کے دلیر نوجوانوں کی طرح ہم بھی اپنی مملکت کو عظیم بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ سو ہمیں چاہئے کہ ہم ’عوام‘ ہونے کی اہمیت کو سمجھیں۔ تنہا ٹہنیوں کی صورت نہیں بلکہ مضبوط گٹھوں کی صورت اپنی زندگی گزاریں۔ تاکہ کسی شخص کو ہماری زندگیوں سے کھیلنے کی جرات نہ ہو۔ اپنی ذمہ داری خود اٹھاتے ہوئے اپنی مدد آپ کے تحت ہر ادارے کو عوامی فلاح کیلئے کام کرنے پر مجبور کریں۔ رشوت جیسے شدید جرائم کی بیخ کنی کریں۔ ہجوم نہیں اب قوم بنکر اپنے بارے میں سوچیں اور اپنا معیار زندگی بلند کریں۔اندرون خانہ معاملات کی ذمہ دار حکومت کو چاہئے کہ اقتدار کی باقی ماندہ مدت وہ عوامی فلاح و بہبود میں گزارے۔ عوامی امنگوں کی ترجمانی کرے اور عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ حکمران جماعت کو یہ بھی چاہئے کہ وہ عام آدمی کے مسائل کو سمجھے اور انکے حل کیلئے کوشاں نظر آئے۔ ورنہ یاد رکھیں اقتدار کی کرسی وہ بیوفا معشوقہ جسے ہر بار اپنا عاشق بدلنے میں کمال کا ملکہ حاصل ہے۔
مصنف پیشہ کے لحاظ سے ایک ویٹنری ڈاکٹر ہیں جو کہ بطور پولٹری کنسلٹنٹ اور فزیشن اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔