لاہور کے لارنس باغ میں چہل قدمی کرتے ہوئے درختوں اور پھولوں کے قطعات کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا یہ گوشہ عافیت کسی جنت سے کم نہیں ہے۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر کچھ دیراوپر دیکھا ۔ انواع و اقسام کے پرندے چہچہا رہے تھے ان کی آوازیں موسیقی کی کسی مدھر موسیقی جیسی تھی۔ درخت نہ ہوتے تو انسان کس قدر مفلس ہوتا۔ قد آور شخصیات بھی ان درختوں جیسی ہوتی ہیں جن کے سائے تلے دل و دماغ کو سکون ،خوشی اور آرام محسوس ہوتا ہے۔
جب بھی کوئی سوچ یا فکر کسی کج روی سے ٹکراتی ہے تو اس کے لیے راستے مسدود کر دیئے جاتے ہیں۔ حسن ناصر استحصالی قوتوں سے ٹکرایا اور اسے شاہی قلعہ میں اذیتیں دے دے کر شہید کیا گیا۔ فیض صاحب نے کہا:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
فیض صاحب کو راولپنڈی سازش کیس میں الجھا دیا گیا۔ حبیب جالب اپنے گریباں کا پرچم لہرا کر نکلے تو انہیں ہر آمرانہ دور میں پابندِ سلاسل کیا گیا۔ ایسی کئی شخصیات جنہوں نے تاریخ کے غلط دھارے کو درست کرنے کی سعی کی تو انہیں اس کی قیمت چکانا پڑی۔ منٹو کی کہانیوں پر تین مقدمات ’اِدھر‘ اور تین ’اُدھر‘ بنائے گئے۔ مگر وہ سماج کو آئینہ دکھاتا رہا اور اس کے دوہرے رویوں کو بے نقاب کرتا رہا۔
غم دیئے مستقل کتنا نازک ہے یہ دل
یہ نہ جانا۔۔ ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ
میں ایاز امیر صاحب سے پہلی بار لاہور پریس کلب میں ملا تھا۔ وہ علامہ صدیق اظہر کے ساتھ کلب کے پارک میں بیٹھے محو گفتگو تھے۔ میں ان کے پاس گیا اور سلام کیا۔ وہ اپنی کرسی سے اٹھے اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا آئیے بیٹھیں۔ کہاں کام کرتے ہیں؟ میں حیران ہوا کہ اتنا بڑا آدمی اور اس قدر محبت اور شفقت کے ساتھ میرے ساتھ پیش آیا۔ میں نے انہیں منٹو کے بارے میں اپنی کتابوں کا سیٹ پیش کیا۔ جس پر وہ مسکرائے اور کہا اچھا تو آپ اپنے ہی آدمی ہیں۔ میں کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ کسی روز تشریف لائیے میں فلاں ہوٹل میں ٹھہرتا ہوں یہ میرا فون نمبر ہے۔ اس کے بعد ان کا جب کوئی کالم پڑھتا میں انہیں فون کرتا اور اپنا اظہار کرتا۔
ایک بار میں انہیں ہوٹل ملنے گیا۔ فون کیا انہوں نے کہا کہ فلاں وقت آ جایئے۔ ہوٹل کے استقبالیہ پر جا کر میں نے اپنا نام بتایا۔ ملازم نے نوٹ کرکے ان کے کمرے میں فون کیا اور میں بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد میں نے دیکھا کہ ایاز امیر صاحب چلے آ رہے ہیں۔ آتے ہی انہوں نے بڑی محبت کے ساتھ مصافحہ کیا، میرا بازو تھامااور کہا آیئے کمرے میں چلتے ہیں۔ میں نے کہا سر میں خود ہی آ جاتا آپ نے زحمت کیوں کی؟ کہنے لگے، آپ میرے مہمان ہیں۔ میں نے آپ کو بلایا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ میں حیرت اور مسرت کے ساتھ ان کے ہمراہ ان کے کمرے میں داخل ہوا۔ میز پر کاغذ، کتابیں بکھری تھیں۔ شاید وہ کالم لکھ رہے تھے۔ اس کے بعد کافی کا آرڈر دیا اور پھر اپنے ہاتھ سے کافی بنا کر کپ مجھے دیا۔
جی بتایئے کیا کر رہے ہیں آج کل۔
میں نے کہا، اتنے برس کام کیا ، چھوڑ دیا۔
یہ کتابیں خود ہی شائع کیں، بہت پیسے لگا دیئے ہوں گے۔ انہوں نے پوچھا۔
میں نے جواباً کہا۔جی سوچا تھا اپنا ہی کوئی کام ہونا چاہیے۔
مشکل تو آئی ہو گی اسے بیچنے میں۔ جی۔ ایک وزیر ہیں آپ کے چکوال کے ہیں۔ ان سے آپ کہہ دیں۔ ایاز صاحب نے کہا آپ فکر نہ کریں۔ کل ہی کہتا ہوں۔ ویسے ان وزیروں سے کوئی توقع نہیں رکھنا چاہیے نہ کبھی ان سے کوئی کام کہتا ہوں۔ میرے کہنے سے اگر اس نے کر دیا تو ٹھیک ہے وگرنہ وہ میری سلام دعا سے بھی گیا۔ میں نے ایاز صاحب سے کہا کہ آپ اپنی آپ بیتی کیوں نہیں لکھتے؟ ایاز صاحب مسکرائے اور کہا یار کتاب کے بارے کبھی سوچا نہیں دوست احباب کہتے ہیں۔ آپ ملتے رہیے کچھ سوچیں گے۔ میرے منع کرنے کے باوجود ایاز صاحب مجھے رخصت کرنے لفٹ تک آئے اور کچھ باتیں کرتے رہے۔ محبت کے ساتھ مجھے رخصت کیا۔
میرا اپنا تجربہ ہے کہ حیثیت اور شہرت سے خیالات بدل جاتے ہیں۔ میں ان کے لیے ایک عام انسان تھا۔ وہ میرے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے مگر اپنے لیے ان کی طرف سے اس قدراپنائیت اورعزت دیکھ کر مجھے اس رکھ رکھاؤ اور انسان سے تعلق کے خاطر کا قدرتی احساس موجزن جو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان کی پہچان ہوتی ہے۔ مجھے یہاں اپنے بچپن کے دن یاد آئے میرا ننھیال دینہ میں ہے جو چکوال کے قریب کا علاقہ ہے جب کبھی اپنی والدہ کے ہمراہ سکول کی چھٹیوں کے دنوں میں وہاں جاتا تھا تو اپنی آؤ بھگت دیکھ رہا بہت حیران ہوتا کئی ایک نانیاں،خالائیں، پھوپھیاں اور ماسیاں اُمڈ آتیںاورمجھے گھیر لیتیں،کسی کے ہاتھ میں دودھ کا پیالہ ہوتا تو کسی نے کوئی پلیٹ اٹھائی ہوتی اور شیریں لہجے میں کہتیں:
’’تساں لہورتوں آئے او خیر نال ہوایتھے رہو تے کوئی شئے وی چاہوں تے دس دیو‘‘
یہ وہی دینہ ہے جہاں گیت نگار گلزار کا جنم ہوا اور بچپن گزرا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کی خوشبو اس کے گیتوں میں آج بھی موجود ہے۔
یہ پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ صوبائی وزیر کے دفتر سے مجھے فون بھی آیا۔ ظاہر ہے ایاز امیر صاحب نے اسے کہا ہوگا۔ مگر اس نے ایک خانہ پُری کرکے مجھے ٹا ل دیا۔ اور میرے بتانے پر ایاز امیر صاحب کو بہت افسوس ہوا لیکن میں اس محبت اور تعلق خاطر کو اپنا فخر آج تک سمجھتا ہوں۔ ان کا کالم ’’جنت کے نظارے‘‘ پڑھا اور میں جھوم اٹھا، اپنے دوست حسنین جمیل کو سنایا تو وہ نشے میں جھومتا رہا (ویسے اسے جھومنے کے لیے کوئی نہ کوئی جواز درکار ہوتاہے)’’سہگل کی یاد میں‘‘ پڑھ کر محسوس ہوا کہ دنیا میں وہ واحد شخصیت ہیں جو گلوکار سہگل کی برسی مناتے ہیں۔
آخری بار ایاز صاحب سے گذشتہ دنوں اس وقت ملاقات ہوئی جب میں پریس کلب جا رہا تھا۔ مال روڈ پر ٹریفک کو بند کر دیا گیا تھا ریگل سے چیئرنگ کراس پہنچا تو رینجرز اور پولیس والے گشت کر رہے تھے، سناٹا تھا۔ سڑک کے دوسری جانب مجھے ایاز امیر صاحب دکھائی دیئے۔ سفید لباس میں ملبوس،وجیہہ قامت، اس پُرہول سناٹے میں کسی روشنی کے تیز ہالے کی طرح ان کا وجود ایک مہربان امید جیسا دکھائی دیا۔ میں تیز قدموں سے ان کی جانب بڑھا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ میری جانب بڑھایا۔ میں نے سلام کیا اور پوچھا۔
سر آپ یہاں کیاکر رہے ہیں۔
تماشا دیکھ رہا ہوں۔
کیا لگ رہا ہے۔
باپ وزیراعظم ہو گیا تو بیٹا بھی وزیراعلیٰ ہو جائے گا دیکھ نہیں رہے یہ رینجرز بندوق بردار پولیس کسی بھی ردعمل سے نپٹنے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے پوچھا:آپ کہاں جا رہے ہیں۔میں نے کہا: جی پریس کلب جا رہا ہوں۔لاہور دوبارہ آؤں گا تو ضرور آیئے گا۔ میں آپ کو فون کر وں گا۔ ان کے اکثر کالم غیر سیاسی ہوتے ہیں۔ وہ خود بھی کہتے ہیں روز روز سیاست کے بارے بات نہیں ہوتی۔ وہ کئی بار لکھ چکے ہیں کہ پلاسٹک بیگز کس قدر نقصان دہ ہیں بلکہ پلاسٹک کی بوتلیں وغیرہ ممنوع قرار دینی چاہیے۔ یا وہ لاہور جو کہیں کھو گیا ہے اکثر ان کا موضوع ہوتا ہے۔ایک بار انہوں نے لکھا کہ
’’جیب میں پیسے ہوں تو انسان عطر کی شیشی یا روح افزا کی بوتل خرید سکتا ہے ۔ اچھی پوشاک پہن سکتا ہے ۔ امیر ہونا بُری بات نہیں البتہ دولت کی ہوس سماج اور شخصیت میں عدم توازن پیدا کر دیتی ہے۔‘‘
ایاز امیر صاحب نے ایک طویل سفر طے کیا۔۔۔ فوج میں ملازمت ۔۔۔ فارن سروس۔۔۔ سیاست۔
اس عشق نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجزداغِ ندامت
یہ کون لوگ تھے جن کے سینے پر ایاز صاحب کے قلم کی تیز نوک سے تکلیف ہوئی اور انہوں نے ایاز صاحب پر مکے تان لیے ،حملہ آور ہوئے اور پھر سر پر پائوں رکھ کرفرار ہو گئے۔شاعروں کے شاعر ن م راشد نے ایسے نقاب پوش عناصر کا تعارف کچھ یوں کرایا ہے۔
اجل، ان سے مل،
کہ یہ سادہ دل
نہ اہلِ صلواۃ او رنہ اہلِ شراب
نہ اہلِ کتاب
نہ اہلِ کتاب اور نہ اہلِ مشین
نہ اہلِ خلا او رنہ اہلِ زمین
فقط بے یقین
اجل ان سے مت کر حجاب
اجل، ان سے مل!
بڑھو، تم بھی آگے بڑھو،
اجل سے ملو
بڑھو نوتونگر گدائو
نہ کشکول دریوزہ گردی چھپائو
تمہیں زندگی سے کوئی ربط باقی نہیں
اجل سے ہنسواور اجل کو ہنسائو
بڑھو، بندگانِ زمانہ بڑھو بندگانِ درم
اجل یہ سب انسان منفی ہیں
منفی زیادہ ہیں، انسان کم
ہو ان پر نگاہ کرم
جس طرح بہتا ہوا چشمہ، تیز ہوا اور بارش اور پھولوں کی خوشبو کے آگے کوئی بند نہیں باندھ سکتا۔ ایاز صاحب کے قلم اور الفاظ پر کون قدغن لگا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔
میں ہمیشہ ان کی آپ بیتی میں دلچسپی رکھتا رہا ہوں اور کئی بار ان سے کہا بھی لیکن وہ ٹال گئے۔ ان کے کئی کالموں میں جب وہ سیاسی تجزیوں سے اکتا جاتے ہیں تو پھر اپنی خودنوشت کے حوالے سے کچھ اوراق پلٹتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ان کا ایک کالم ’’تباہی کا آغاز کہاں سے ہوا‘‘ شائع ہوا جو فریم کرنے کے قابل ہے۔اس کالم سے کچھ اقتباسات یہاں پیش ہیں۔
’’ملک کی ٹھیک ٹھاک حالت ان گناہگار آنکھوں نے دیکھی ہے۔ عمر زیادہ تو نہ تھی لیکن اتنا احساس تھا کہ چیزیں چل رہی ہیں۔ نظام اور حکمرانی کی اتنی سمجھ نہ تھی لیکن غریب ملکوں میں پاکستان کا ایک مقام تھا۔ مقام نہ بھی ہو روپے کی قدر تھی۔ 1974ء میں جب ماسکو میں پوسٹنگ ہوئی تو تقریباً 4 روپے ستر 80 پیسے کا ڈالر ملتا تھا۔ دو آنے کی روٹی ملتی تھی اور کئی جگہوں پر دو روٹیاں خریدنے پر دال تھوڑی سی مفت مل جایا کرتی تھی۔ اچھے خاصے ریستورانوں میں سلادمفت ہوا کرتا تھا اور کھانے کے دوران مزید سلادمنگواتے تو وہ پہنچا دیا جاتا۔‘‘
’’کپتانی کے پھول لگے تو لاہور میں پوسٹنگ ہوئی اور کچھ عرصہ بعد پھر 71ء کی جنگ چھڑ گئی۔ کپتانی کی تنخواہ کیا تھی، ساڑھے سات سو روپے ملا کرتے تھے۔ ان سستے زمانوں میں بھی اتنی رقم میں کچھ زیادہ عیاشی تو نہ ہو سکتی تھی لیکن پھر بھی کبھی کبھار انٹرکانٹی نینٹل چلے جاتے جو اب پی سی ہے۔ تب اس ہوٹل میں بڑی رونق ہوا کرتی تھی۔ گراؤنڈ فلور پر وہ کمرہ تھا جسے بار یا سیلون کہتے ہیں۔ شام کے سائے ڈھلتے ہی یہ جگہ متوالوں اور دوسرے قسم کے تماش بینوں سے بھر جایا کرتی تھی۔ سات سے لے کر نو بجے تک وہاں دستیاب اشیا کی قیمتیں آدھی ہو جایا کرتی تھیں۔ پھر کیا سماں بندھتا تھا۔ آرڈر پہ آرڈر چل رہا ہوتا تھا اور ماحول بھی یوں سمجھئے تھوڑا رنگین مزاج ہو جاتا تھا۔ قہقہے لگ رہے ہوتے تھے اور کچھ اشخاص جھومتے ہوئے بھی نظر آتے تھے۔‘‘
’’اُن دنوں کی یاد دل سے جاتی نہیں البتہ یہ ملال ضرور ہے کہ نوکری کے بجائے لاہور کے فٹ پاتھوں کو ماپتے تو زیادہ اچھا رہتا۔ کسی کالج سے فارغ التحصیل نہ ہوئے، طالب علمی کا وہ مزہ نہ چکھا، سیاسی و ادبی مجلسوں سے دور رہے۔ اس زمانے کے لاہور کے جو بڑے نام تھے ان کا درشن نہ کر سکے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صوفی تبسم جہاں محفل کرتے، دروازے کے قریب جہاں جوتیاں رکھی جاتی ہیں، ہم بھی کہیں بیٹھ جاتے۔ ان لوگوں کی گفتگو تو سن لیتے۔ خواجہ خورشید انور تھے، کہیں تو بیٹھتے ہوں گے۔ فیض صاحب بھی ایسی محفلوں کی جان تھے۔استاد امانت علی خان بھی ہارمونیم اور پیالہ لیے شام کو کسی جگہ سماں باندھتے ہوں گے۔ لیکن ہم نوکری کے اسیر تھے، ایسی آوارہ گردی کر نہ سکتے تھے۔ یہ ایک ایسا ارمان ہے جس نے اب تک دل میں گھر بنایاہوا ہے۔ بس کچھ حالات ہی ایسے تھے اور شاید آوارہ گردی کرنے کے لیے ہم میں اتنی ہمت بھی نہ تھی۔‘‘
’’من کی کھڑکی سے باہر جھانکیں تو حالات اچھے نہیں لگتے۔ لیکن اب خلوت میں رونے دھونے کا جی نہیں کرتا۔ ہم نے تو ایک جوانی ضائع کی، اس ملک نے پتا نہیں کیا کچھ ضائع کر دیا۔ بڑے مواقع تھے، بہت کچھ ہو سکتا تھا لیکن جیسے عیاش اولاد اپنے بڑوں کا ورثہ برباد کرتی ہے ہم نے اس ملک کے ساتھ کچھ ایسا ہی کیا۔ سمجھدار لوگوں نے اپنا اُلو سیدھا کیا اور اس بات کی پرواہ نہ کی کہ ملک کہاں جا رہا ہے۔ لیکن ہاں زیادہ کیا روئیں؟ یہ بھی دن آنا تھا کہ پنجاب کا منصب دار حمزہ جیسا شخص بنے۔ یہ کوئی افسانہ نہیں، ہمارے سامنے سب کچھ ہو رہا ہے۔ یہ سطور شام کو لکھی جا رہی ہیں۔ کچھ دیر بعد مزدوری کی غرض سے ٹی وی چینل جانا ہے، اس کے بعد ایک دعوت ہے۔ ایک تو یہ ڈیفنس کے علاقے ہمیں راس نہیں، مال کے جس سرائے میں قیام ہوتا ہے اس سے ڈیفنس کا علاقہ بہت دور پڑتا ہے۔ لیکن کیا کریں مجبوری ہے۔ میزبان کو بار ہا بتانے کی کوشش کی کہ محفل کوئی ڈھنگ کی ہونی چاہیے۔‘‘
’’کہنے کو کہتے ہیں کہ گزرے لمحوں کا ارمان دل میں نہیں رکھنا چاہیے۔ لیکن یہ بات کہنی آسان ہے، شام کے سائے گہرے ہو رہے ہوں تو یاد بے اختیار ارمانوں کی طرف جاتی ہے۔ یہ بھی خوش نصیبی ہے کہ کچھ تو رونے کو ہے۔ کچھ تو لمحات زندگی کے ایسے گزرے جن کی یاد نہ صر ف باقی ہے بلکہ کبھی کبھی خاصی تڑپاتی ہے۔ سوچئے تو ذرا کہ زندگی گزر جائے اور دل میں کچھ بھی ارمان نہ ہوں۔ ایسی زندگی تو پھر بیکار ہی گزری۔ اس لحاظ سے اعتراف کرنا پڑے گا کہ زندگی اچھی ہی گزری۔ دل ویران نہیں، ارمانوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہی شاید ہماری زندگی کا حاصل ہے کہ یادیں ایسی ہیں کہ دل سے جاتی نہیں۔ شام ہوتی ہے تو کچھ میز پہ سجی چیزیں ہوتی ہیں اور پھر اپنی یادیں اور ان یادوں سے وابستہ گہرے ارمان اور پھر درد بھری دھن کہیں سے اٹھے، باقی چیزیں ثانوی اور بیکار حیثیت کی رہ جاتی ہیں۔ ایک بات البتہ طے ہے ، شاموں کو خوشگوار آواز ہی اچھی لگتی ہے۔ زیادہ اونچا قہقہہ یا بے سری گفتگو برداشت نہیں ہوتی۔ بہرحال جو بھی میسر ہو اللہ کی مہربانی ہے۔‘‘
ایاز امیر صاحب زندہ ضمیر اور دائمی سچ کی آواز ہیں ۔ آپ نے واقعتا کبھی پارسائی کا نقاب نہیں اوڑھا۔ میں آپ کا موازنہ کسی دوسرے کالم نگار سے نہیں کرنا چاہتا لیکن جو روشنی آپ کے الفاظ سے ملتی ہے وہ مدتوں دلوں کو گرماتی رہتی ہے۔ میرا بھی ارمان ہے کہ جہاں آپ محفل میں موجود ہوں دروازے کے قریب جہاں جوتیاں رکھی جاتی ہیں، ہم بھی وہیں بیٹھ جائیں۔
گذشتہ دنوں انہوں نے اپنے ایک کالم میں اپنی 72 ویں سالگرہ کے حوالے سے بتایا۔ میں ان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور یہ کہنا چاہتا ہوں جو خواب دیکھتی ہیں وہ آنکھیں کبھی بوڑھی نہیں ہوتیں۔
کڑوے گھونٹ کے خمار میں ڈوبی ہوئی لہراتی جھومتی ریشمی آوازسنائی دی۔
’’اک بنگلہ بنے نیارا‘‘
طاہر اصغر مصنف و صحافی ہیں ان کی دلچسپی کے موضوعات پروفائل اور آپ بیتی لکھنا ہے۔ وہ جالب بیتی اور منٹو فن و شخصیت کی کہانی کے مصنف ہیں۔ زیر طبع ناول ’’قصہ غوغا غٹرغوں‘‘ ہے ۔موسیقی اور ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔