مویشی پالنا پاکستان کے دیہی علاقوں کے باشندوں کی سب سے اہم معاشی سرگرمی ہے۔ 80 لاکھ سے زیادہ دیہی خاندان مویشیوں کی پیداوار میں مصروف ہیں اور اپنی آمدنی کا تقریباً 35-40 فیصد اس شعبے سے حاصل کر رہے ہیں۔
لمپی سکن ڈیزیز(Lumpy Skin Disease) ایک وائرل بیماری ہے اور عام طور پر مچھروں اور مکھیوں کے کاٹنے کے ذریعے ایک جانور سے دوسرے جانوروں میں منتقل ہوتی ہے۔ سنا ہے، برہمن اور گیر (Brahman and Geer) نسل کے مویشی چند ماہ قبل جنوبی افریقہ سے کراچی درآمد کیے گئے تھے جس کے ساتھ ہی یہ بیماری پاکستان میں آئی۔
چونکہ یہ اس خطے کی بیماری نہیں تھی اس لیے جب پہلے جانور متاثر ہوئے تو مقامی ویٹرنری پریکٹیشنرز اس کی تشخیص نہیں کر پائے اور جب تک مقامی سطح پر اس کی نشاندہی کی گئی تو کراچی میں سینکڑوں جانور ہلاک ہو چکے تھے۔ بعد میں متاثرہ جانوروں کو غیر ارادی طور ہر پاکستان کے دیگر صوبوں کی مختلف منڈیوں میں لے جا کر بیچ دیا گیا جس سے ملک بھر کے زیادہ تر جانور متاثر ہوگئے۔
پاکستان میں یہ بیماری انتہائی نازک وقت پر پہنچی ہے کیونکہ لوگوں نے عیدالاضحی کے لیے اپنے جانور خریدنا شروع کر دیے ہیں۔ پہلے عیدالاضحیٰ پر خریداری کا رجحان عام طور پر گائے اور گائے کے بچھڑے خریدنے کی طرف ہوتا تھا کیونکہ یہ دوسرے جانوروں کی نسبت سستے ہوتے ہیں لیکن اب اس بیماری نے پاکستان بھر کے بیشتر جانوروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور خریداروں کا رخ بھینس، بھینس کے کٹوں، بھیڑ، مینڈھوں یا بکروں کی طرف ہو گیا ہے لیکن مہنگائی میں بے تحاشا اضافے اور قوت خرید میں کمی نے صورتحال کو مشکل کر دیا ہے۔ اب جب کہ تندرست جانوروں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں جس نے مذہبی فریضے کو ادا کرنے کے لیے عام آدمی کی قوت خرید کو کمزور کر دیا ہے۔
اس بیماری کا جائزہ لیا جائے تو اس کا انکیوبیشن پیریڈ 6 سے 21 دن کے درمیان ہوتا ہے۔ جب لوگ قربانی کے جانور خرید رہے تھے تو بیمار جانور سب کلینیکل sub-clinical سٹیج میں تھے اور لوگوں کو اس بیماری کا علم نہیں ہوا بعد میں جب جانوروں میں لمپی سکن ڈیزیز Lumpy Skin Disease کی علامات ظاہر ہونے لگیں تو پتہ چلا کہ ان کا دودھ اور گوشت بھی متاثر ہو گیا جو کہ انسانی استعمال کے لیے غیر صحت مند قرار دیا گیا تھا جس کی وجہ سے عام آبادی تو خریداری کے عمل میں متاثر ہوئی سو ہوئی اس کے ساتھ ساتھ غریب کسانوں اور دیہی غریبوں کو بھی شدید سماجی اور مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جو صرف عید الاضحی کے موقع کےلئے ملک کے دیہی علاقوں میں رہتے ہوئے جانور پال رہے تھے۔
اب اگر ہم صرف متاثرہ جانوروں پر بات کریں، اگرچہ وہ بہت کم وقت میں ٹھیک ہو جائیں گے، لیکن طویل عرصے میں مادہ جانوروں کو نسل کی بڑھوتری میں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا اور نر کو بھی تولیدی عمل میں مسائل درپیش ہوں گے گا۔ جس سے دودھ اور گوشت کی قومی پیداواری صلاحیت کو نقصان کا خدشہ ہوگا۔
اگرچہ ہم نے بہت دیر کر دی ہے کیونکہ حکومت ملک کے دیگر حصوں میں جانوروں کو بچانے کے لیے نقل و حمل پر سخت گیر پابندی کے احکامات جاری کر سکتی تھی مگر ابھی بھی قومی وزارت فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ (NFS&RM) کو تمام صوبوں کے لائیو سٹاک کے محکموں کے ساتھ مل کر ملک کے طول وعرض میں ہر جانور کو بچانے کے لیے ویکسینیشن کرنی چاہیے کیونکہ لائیوسٹاک کا شعبہ زراعت کی مالیت میں تقریباً 61.9 فیصد اضافہ کر رہا ہے اور 2021-22 کے دوران قومی جی ڈی پی میں اس شعبہ کا حصہ 14 فیصد رہا ہے۔
وفاقی حکومت کو چاہیے کہ پاکستان بھر میں جانوروں کی 'کارپٹ ویکسینیشن' کروائے تاکہ ناصرف کسانوں بلکہ قومی معیشت کو بھی مستقبل میں کسی بھاری نقصان سے بچایا جا سکے۔ تاہم، لمپی سکن ڈیزیز Lumpy Skin Disease کے پھیلاؤ نے بہت سے غریب کسانوں کی روزی روٹی کے لیے بہت سنگین خطرہ لاحق کر دیا ہے۔ 2018 میں FAO کے تخمینے کے مطابق صرف "منہ کُھر" (FMD) کی بیماری کی وجہ سے دودھ کی پیداوار، علاج کی لاگت، جسم کی کمزوری کے علاوہ بھینسوں اور گائے کے بچھڑوں میں وزن میں کمی اور اموات کے لحاظ سے 692 ملین امریکی ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ مجھے ڈر ہے کہ لمپی سکن ڈیزیز Lumpy Skin Disease کے نقصانات FMD سے کہیں زیادہ ہوں گے کیونکہ یہ 2022 ہے اور جانوروں کے لمپی سکن ڈیزیز Lumpy Skin Disease سے متاثر ہونے کا تناسب FMD سے کہیں زیادہ ہے۔
عامر حیات بھنڈارا ایک کسان اور سیاستدان ہیں۔ مصنف ایگریکلچر ریپبلک اور ڈیجیٹل ڈیرہ کے شریک بانی ہیں۔ ان سے بذریعہ ای میل aamerht@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ AamerBhandara@ کے نام سے ہے۔