ہم نچلی سطح پر اس عزم سے عوام کی خدمت کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں کہ بنیادی سہولتیں ان کی دسترس میں ہوں، وہ خودمختار ہوں، معاشرے میں خواتین کی حیثیت کو مضبوط کیا جا سکے اور عام عوام کو ایسی لیڈرشپ مہیا کی جائے جو انہی میں سے ابھری ہو، ان کی پہنچ میں ہو، جن کے مسائل عام آدمی والے ہوں اور جو مشکل وقت میں بھاگ نہی جائیں۔ یہ کہنا ہے ضلع اوکاڑہ کے حلقہ پی پی 187 سے امیدوار برائے صوبائی اسمبلی اور عوامی و سماجی شخصیت رائے مشتاق احمد کھرل کا۔
نیا دور سے خصوصی انٹرویو میں رائے مشتاق احمد کھرل نے ملک میں جاری موروثی سیاست سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ وراثتی طور پر قابو میں آئے حلقوں میں کامیاب امیدوار کو عوام کی پروا نہیں ہوتی۔ انتخابات کے دنوں میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے وہ حلقے کا رخ کرتے ہیں اور پھر بڑے شہروں میں بھاگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ آخری سال میں آ کر عوام سے ملتے ہیں اور پھر سے ووٹ کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض مغرور سیاست دان تو ووٹ کے دنوں میں بھی عوام کے سامنے جانا گوارا نہیں کرتے۔ ہم گذشتہ دو دہائیوں سے عوام کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان کے دست و بازو بن کر ان کی مشکلات دور کرتے ہیں۔
رائے مشتاق احمد کھرل کا کہنا ہے کہ جگنو محسن کی زیر نگرانی وہ 2008 سے قصبہ شیرگڑھ کے مختلف حلقوں میں فلاحی کام سرانجام دے رہے ہیں۔ شیر گڑھ جگنو محسن کا آبائی حلقہ ہے جہاں سے انہوں نے 2018 میں صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لیا تھا اور کئی نسلوں سے حلقے کی سیاست پر قابض گیلانی خاندان کے چشم و چراغ سید علی رضا گیلانی کو 20 ہزار ووٹوں کی لیڈ سے ہرا دیا تھا۔ اس سیٹ پر سید علی رضا گیلانی کے والد کئی دہائیوں سے کامیاب ہوتے آئے تھے مگر 2002 میں پرویز مشرف کے دور میں جب اراکین اسمبلی کا گریجویٹ ہونا ضروری قرار پایا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو انتخابی میدان میں اتارا۔ اگلے تین انتخابات میں سید علی رضا گیلانی اس نشست سے کامیاب ہو کر پنجاب اسمبلی پہنچتے رہے مگر عوامی مسائل جوں کے توں رہے۔
انہوں نے بتایا کہ علاقے میں 2015 میں جگنو محسن کی نگرانی میں علاقے میں المحسن گروپ بنا جس کے تحت سیاسی جدوجہد جاری رکھی اور فلاحی کام بھی کروائے۔ رائے مشتاق کھرل قریب 15 سال سے جگنو محسن کے دست راست ہیں اور عوام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ انہوں نے قصبہ شیر گڑھ میں سکول، ہسپتال، آئی کلینک، ڈسپنسری، لیڈیز پارک اور واٹر فلٹریشن پلانٹس جیسی سہولیات کا انتظام کیا ہے۔
اس کے علاوہ حلقے میں خواتین کے لئے سلائی سکول کھولا گیا ہے جہاں خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے انہیں سلائی کڑھائی کی تربیت دی جاتی ہے۔ رائے مشتاق نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ایسے دیگر پروجیکٹس بھی زیر غور ہیں جنہیں عنقریب شروع کر دیا جائے گا۔ سلائی سکول کے علاوہ علاقے میں انہوں نے داؤد بندگی ہسپتال کھول رکھا ہے جس میں خاص طور پر زچہ بچہ سے متعلق سہولیات سے آراستہ وسیع وارڈ موجود ہے۔ ہسپتال میں میٹرنٹی کی بہترین سہولیات دستیاب ہیں۔ اگر کسی مریض کو دوسرے ہسپتال ریفر کیا جاتا ہے تو ان کے لئے ایمبولینس سروس کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مریضوں کو داؤد بندگی ہسپتال سے لاہور کے بحریہ ہسپتال سمیت کئی دیگر ہسپتالوں میں ریفر کیا جاتا ہے اور ایمبولینس کے ذریعے وہاں پہنچایا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم حلقے میں کئی سالوں سے 4 لنگر خانے چلا رہے ہیں جہاں غریبوں کو مفت کھانا کھلایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گذشتہ 15 سالوں سے جگہ جگہ فری میڈیکل کیمپ لگا کر ہر طرح کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو علاج معالجے کے لئے مدد فراہم کرتے رہے ہیں۔ ان میں دل کے بائی پاس والے مریض بھی شامل ہیں۔ کڈنی اور لیور ٹرانسپلانٹ میں بھی مریضوں کی معاونت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے علاقے میں پولیس کو سیاست سے آزاد کر دیا ہے۔ رشوت کا کلچر ختم کر دیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے نوکریاں ان لوگوں کو دلوائی جاتی ہیں جو زیادہ مستحق ہیں۔ غریبوں کے حقوق پہ کسی کو ڈاکہ مارنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
جگنو محسن نے 2018 کے انتخابات میں اسی حلقہ سے کامیابی حاصل کی تھی اور اب انہوں نے اپنی جگہ اپنے دست راست رائے مشتاق احمد کھرل کو امیدوار نامزد کیا ہے۔ رائے مشتاق نے بتایا کہ اس وقت ہمارے قصبے سے راؤ اجمل ممبر قومی اسمبلی ہیں اور صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں کے لئے انہوں نے اپنے بیٹوں کے لئے انتخابی ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے پاکستان مسلم لیگ ن کو درخواست دے دی ہے۔ ہماری لڑائی اسی خاندانی اور موروثی سیاست کے خلاف ہے۔ ہم عوام کو متبادل قیادت فراہم کرنا چاہتے ہیں جو نوجوان ہو اور جن کے دل میں عوامی خدمت کا جذبہ موجود ہو۔