مذہبی منافرت کی آگ 32 سال کا دائرہ مکمل کر کے سرگودھا لوٹ آئی

تین دہائیاں پہلے مذہبی انتہاپسندی اور جنونیت کا آغاز جس علاقے سے ہوا تاریخ 32 سال بعد پلٹ کر 2024 میں پھر اُدھر ہی پہنچ چکی ہے۔ گویا ایک دائرہ مکمل ہوا۔ امید کی جانی چاہیے کہ 32 سالوں کی یہ نفرت ایک چکر پُورا ہونے کے بعد اپنے مقامِ آغاز میں ہی دفن ہو جائے گی تا کہ انسانیت زندہ رہ سکے۔

مذہبی منافرت کی آگ 32 سال کا دائرہ مکمل کر کے سرگودھا لوٹ آئی

چلیے! آج سرگودھا کی مجاہد کالونی میں نذیر مسیح کے گھر سے نکل کر سرگودھا ہی کے گِل والا (چوک) کے رہائشی گُل مسیح تک اُلٹے پاؤں چلتے ہیں۔ یوں سرگودھا کے نذیر مسیح سے سرگودھا ہی کے گُل مسیح تک ایذا رسانیوں کی کہانیوں کا ایک دائرہ مکمل ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ گُل مسیح پر 1991 میں اہانتِ دین کا مقدمہ درج ہوا تھا اور وہ اس قانون کے تحت سزائے موت پانے والا پہلا متاثرہ شخص تھا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ آغاز بھی سرگودھا سے ہوا اور اختتام بھی سرگودھا ہی ہو گا۔

مسیحیوں کے خلاف جلاؤ گھیراؤ، تشدد اور نفرت کی حالیہ قسط 25 مئی 2024 کو ضلع سرگودھا میں واقع مسیحی رہائشی بستی مجاہد کالونی میں پیش کی گئی جس سے ملحقہ علاقہ گِل والا (چوک) کہلاتا ہے۔ اس قسط میں مظلوم کا کردار نذیر مسیح اور اُس کے اہلِ خانہ نے ادا کیا ہے۔ اِس قسط میں دکھایا گیا ہے کہ ایک مسیحی خاندان جس کا گزر بسر جوتیاں بنانے کے ایک کم مالیت کارخانہ پر ہے اُس کے سربراہ نذیر مسیح پر اہانتِ دین کا الزام لگا کر گلیوں میں گھسیٹا جاتا ہے۔ جان لیوا اندھا دھند تشدد کیا جاتا ہے۔ دین کے نام پر مسیحی خاندان کی دُکان اور گھر میں جی بھر کے لُوٹ مار کی جاتی ہے اور آخرکار دل کی تسلی کے لئے املاک کو نذرِ آتش کر دیا جاتا ہے۔ معلومات کے مطابق یہ قسط محض ذاتی رنجش کی بنا پر ترتیب دی گئی جس کی بہرحال سرکاری تحقیقات کا انتظار ہے۔

افسوس، صد افسوس کہ اِس قسط کی رُوداد ابھی سپرد قلم کی ہی جا رہی تھی کہ خبر آ گئی کہ نذیر مسیح زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس جہانِ فانی سے کُوچ کر گیا ہے۔ گویا تکفیر کے الزامات میں شیہد ہونے والوں میں ایک اور انسان کا اضافہ ہو گیا۔

آہوں، سسکیوں اور جنازوں سے بھری یہ تاریخ 30 سال سے زائد کے عرصہ پر محیط ہے۔ ان سالوں میں اس سرزمینِ پاک پر بسنے والی مذہبی اقلیتوں اور روشن خیال ذہنوں پر قیامتیں گزری ہیں۔ محض افواہوں اور ذاتی رنجشوں کی بنیاد پر گاؤں کے گاؤں اُجاڑے گئے ہیں، بستیاں جلائی گئی ہیں، رہنماؤں کو سپردِ خاک کیا گیا ہے، عبادت گاہوں کا تقدس پامال ہوا ہے اور ماؤں کے خوابوں کو کُچلا گیا ہے۔

دکھوں اور دردوں سے بھری اس غمناک کتھا کی چند اقساط کا احوال بیان کئے دیتے ہیں تا کہ گِل والا سے گُل مسیح تک اُلٹے پاؤں چلنے میں تھوڑی آسانی رہے۔

گذشتہ سال اگست 2023 میں بھی ایسی ہی بربریت کا منظر جڑانوالہ میں دیکھنے میں آیا، جہاں ایسی ہی افواہ اور ذاتی عناد کی بنا پر درجنوں گرجا گھروں اور سینکڑوں گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا.

ستمبر 2019 میں ہندو سکول ماسٹر نوتن لعل پر گھوٹکی میں اُس کے شاگرد نے اہانتِ دین کا الزام لگا دیا، جس کے نتیجہ میں نوتن لعل کے گھر، سکول اور مندر پر ہلہ بول کر توڑ پھوڑ کی گئی اور مذہبی منافرت کا اظہار عبادت گاہ کی بے حرمتی کر کے کیا گیا۔

آئیے، اس سے بھی پچھلی ایک اور بھیانک قسط دیکھتے ہیں۔ دسمبر 2021 میں سیالکوٹ میں ایک فیکٹری کے سری لنکن مینجر پر تکفیر کا الزام لگا کر اُسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بعد ازاں مشتعل ہجوم اُسے سڑک پر گھسیٹتا رہا، اُس کے بدن کو آگ لگا کر راکھ بنا دیا گیا۔ حد تو یہ کہ مذہبی جنونی اُس کی نعش پر بھی حملہ آور ہوتے رہے۔

اُسی سال مذہبی منافرت کی ایک قسط نومبر میں ضلع چارسدہ میں پیش آئی جہاں ایک مشتعل ہجوم نے ایک ذہنی معذور شخص کو پولیس کی حراست سے نکال کر جلانے کی غرض سے پولیس سٹیشن کو ہی آگ لگا دی۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

ابھی تو کہانی شروع ہوئی ہے۔

اپریل 2017 میں ضلع مردان کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں مذہبی جذبات کی منافرت سے بھرے ہجوم نے مشعال خان کو پتھروں اور اینٹوں کے وار کر کے قتل کر دیا۔

اس سے جُڑا دردناک ترین منظر نومبر 2014 میں ضلع قصور کے علاقے کوٹ رادھا کشن میں پیش آیا جہاں ایک مسیحی جوڑے شمع اور شہزاد مسیح کو مشتعل ہجوم نے انتہائی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلا کر مار ڈالا۔

مذہبی جنونیت کی ایسی ہی ایک قسط سال 2017 میں جنوری کے مہینے میں پیش آئی جب ایک 70 سالہ برطانوی شخص کو جیل میں پولیس اہلکار نے ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ہم نے مذہبی انتہا پسندی کی اس تربیت میں کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ مرد، عورت، خواندہ، ناخواندہ، ذہنی یا جسمانی معذور، حتیٰ کہ مردہ افراد پر بھی اپنا غصہ نکالا ہے۔

سال 2013 کے جون کے مہینے میں مسیحی جوڑے شفقت اور شگفتہ پر اہانتِ دین کا الزام لگایا گیا۔ شفقت برس ہا برس سے دونوں ٹانگوں سے معذور تھا۔

علاوہ ازیں ہم نے ایک ہی سال میں دو نادر رہنما کھوئے ہیں۔ 2011 کے مارچ میں شہباز بھٹی اور اُس سے پہلے جنوری میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر اسی ذہنیت کا شکار بنے۔

فیصل آباد کے دو بھائیوں راشد عمانوئیل اور ساجد عمانوئیل پر جولائی 2010 میں اہانتِ دین کا الزام لگایا گیا تو انہیں عدالت لے جاتے ہوئے پولیس اہلکاروں نے ہی گولی مار کر قتل کر دیا۔

اگست 2009 میں مذہبی انتہاپسندوں نے مسیحیوں کے گھروں کو آگ لگا دی جس کے نتیجے میں 8 افراد ہلاک ہو گئے۔

اس سے قبل جولائی 2009 میں قصور کے نواحی گاؤں کوریاں میں مسیحیوں کے گھروں میں لوٹ مار اور مردوں عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اُن کی املاک کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔

خانیوال کے گاؤں شانتی نگر میں 1997 میں انتہا پسند ہجوم نے مسیحیوں کے گاؤں پر دھاوا بول دیا اور کھیتوں، گھروں، سکولوں، ڈسپنسریوں، گرجا گھروں اور یہاں تک کہ گاؤں کا گاؤں ہی جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔

جب ایوب مسیح پر اکتوبر 1996 میں تکفیر کا الزام لگایا گیا تو گاؤں کے تمام مسیحی خاندان اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسرے شہروں کی جانب بھاگ نکلے۔ اُن کی غیر موجودگی میں اُن کے گھروں کے سامان پر ہاتھ صاف کیا گیا۔ وجہ عناد یہ تھی کہ مقامی زمیندار نہیں چاہتے تھے کہ مسیحی لوگ زمینوں کے مالک بنیں، لہٰذا اسی بات کی پاداش میں سازش کر کے ایوب مسیح پر اہانتِ دین کا مقدمہ درج کروایا گیا، جس نے مذہبی جنونیت کو ہوا دی۔

اہانتِ دین کے جرم میں سزائے موت لازمی قرار دیے جانے کے بعد 1991 میں سرگودھا کے گِل والا (چوک) کا رہائشی گُل مسیح پہلا متاثرہ شخص تھا جس پر پانی کے نلکے کے معاملے کو مذہبی فساد کا رنگ دیتے ہوئے 10 دسمبر 1991 کو اہانتِ دین کا الزام لگایا گیا تھا۔

گُل مسیح پر تکفیر کا مقدمہ دسمبر 1991 میں سرگودھا میں بنا اور مئی 2024 میں 32 سال، 5 ماہ اور 5 دن بعد اُسی شہر اور لگ بھگ اُسی علاقے میں نذیر مسیح کو بھی اُسی طرح حسد، نفرت اور مذہبی جنونیت کا شکار بنا دیا گیا۔

تین دہائیاں پہلے مذہبی انتہاپسندی اور جنونیت کا آغاز جس علاقے سے ہوا تاریخ 32 سال بعد پلٹ کر 2024 میں پھر اُدھر ہی پہنچ چکی ہے۔ گویا ایک دائرہ مکمل ہوا۔ اب پاکستان کی مذہبی اقلیتیں اور روشن خیال طبقات یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی انسان دشمن سوچ نے انسانیت کا، پاکستان کا، مذہبی اقلیتوں کا، روشن خیال طبقات کا، نسل در نسل کی ذہنی تربیت کا، مذہبی ہم آہنگی کا اور مذہبی رواداری کا بے تحاشہ نقصان کر دیا ہے۔ اب اُمید کی جانی چاہیے کہ 32 سالوں کی یہ نفرت ایک چکر پُورا ہونے کے بعد اپنے مقامِ آغاز میں ہی دفن ہو جائے گی تا کہ انسانیت زندہ رہ سکے۔