بھارتی میڈیا پر چھوڑ دیا جائے تو برصغیر کب کا تباہ ہو چکا ہو

بھارتی میڈیا پر چھوڑ دیا جائے تو برصغیر کب کا تباہ ہو چکا ہو
اگر کبھی پاکستان اور بھارت اپنا تنازع حل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس میں شکریہ کم سے کم بھارتی میڈیا کا نہیں ادا کیا جائے گا۔ فروری کی 14 تاریخ کو کشمیر کے علاقے پلوامہ میں خودکش حملے کے بعد جس میں 40 بھارتی جوانوں کی جان گئی، بھارت کے خبروں کے ٹی وی چینل خون کا بدلہ لینے کا شور مچانے میں لگے رہے۔ اور عام شہری سوشل میڈیا پر یہی مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ حملہ جیشِ محمد نامی دہشت گرد تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایک خود کش دہشت گرد نے کیا تھا۔ بھارت پاکستان پر اس تنظیم کو مدد دینے اور اسے اپنی سرزمین پر پالنے کا الزام عائد کرتا ہے۔

پلوامہ حملے کے ایک دن بعد مشہور جارح مزاج نیوز اینکر ارناب گوسوامی ٹی وی پر بیٹھا چلا رہا تھا کہ یہ وقت خون بہانے کا ہے، دشمن کا خون۔ یہاں تک کہ اس حملے میں مرنے والے ایک فوجی کی بیوہ کو بھی اس وقت آن لائن ہراسانی کا سامنا کرنا پڑ گیا جب اس نے اس حملے کو روکنے میں ناکامی پر سوالات اٹھائے اور پاکستان کے ساتھ پرامن مذاکرات کی حمایت کی۔ کچھ لوگوں نے اسے بزدل قرار دیا جبکہ کچھ نے کہا کہ وہ اپنے خاوند سے پیار نہیں کرتی تھی۔ پھر بھی اس مسئلے پر تبصرے کرتے ہوئے ریٹائرڈ جنرل اور سفارتکار انتہائی محتاط رہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو جنگیں لڑنے کا ذرہ برابر بھی تجربہ نہیں ہے وہ جنگ کے بارے میں زیادہ پرجوش تھے۔

https://www.youtube.com/watch?v=HEOapHSZokE

بھارت کو ایک مکمل اور بڑی جنگ لڑے کافی عرصہ بیت چکا ہے۔ اس دوران بھارتی فوج دہشت گرد حملوں اور اندرونی بغاوتوں کو کچلنے میں مصروف رہی ہے۔ اس ناتجربہ کاری کے باعث بھارتی نسل کی بہت بڑی تعداد کے اذہان میں جنگوں اور ان کی فتوحات کے بارے میں غلط تصورات نے جنم لے لیا ہے۔

گذشتہ دو ہفتوں سے "ایونج پلوامہ اور سرجیکل سٹرائیک ٹو نامی ہیش ٹیگ بھارت میں سوشل میڈیا پر چھائے رہے۔ پھر دونوں ممالک کی فضائی افواج کی گذشتہ ہفتے جھڑپ ہوئی۔ ٹیلی وژن چینلوں کے اینکر بھی جنگ کا ڈھول پیٹنے میں کسی سے بھی پیچھے نہیں رہے۔ ایک نے تو فوجی وردی اور کھلونا پستول پکڑ رکھی تھی اور وہ معتدل مزاج آوازوں کو ریاست مخالف قرار دے رہے تھے۔ بھارت میں یہ اصطلاح اکثر دوسروں کی حب الوطنی اور وفاداری پر سوال کھڑے کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے، خصوصی طور پر بائیں بازو کے افراد یا امن کیلئے سرگرم کارکنوں کے خلاف۔ ایک تبصرہ نگار نے ٹویٹر پر یہ لکھا کہ وہ لوگ جو بھارتی حکومت کے اقدامات کی حمایت نہیں کر رہے ہیں وہ غدار تھے۔

https://www.youtube.com/watch?v=vSKAJpOC0Ro

اس تمام مدعے میں جس چیز کی عدم موجودگی ہے وہ اس پورے کھیل کو سمجھ نہ پانا ہے جس کی نشاندہی بیوہ میتا سانترا نے بھی کی۔ امریکہ اور دیگر ممالک جہاں جبر نہیں ہے وہاں بھارتیوں کی تعداد جنہوں نے افواج میں کام کیا ہو بیحد کم ہے اور اشرافیہ میں یہ مزید کم ہے۔ آج کے سوشل میڈیا جنگجوؤں اور ٹی وی کے اینکروں نے اپنی زندگی میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات دیکھے ہیں لیکن ان میں سے بہت سے افراد کی عمر اتنی نہیں ہے کہ انہیں بھارت کی پاکستان کے ساتھ اصل جنگیں یاد ہوں۔ 1965 میں 22 دنوں کی جھڑپ جس کے باعث گیارہ ہزار پانچ سو اموات ہوئیں، اور 1971 کی جنگ جو بنگلہ دیش کے قیام کا مؤجب بنی۔ اموات کے علاوہ ان جنگوں نے پورے ملک میں روزمرہ کے معمولات زندگی اور کاروبار پر بھی اثرات مرتب کیے۔ 1965 میں پاکستان کی سرحدوں سے دور جنوبی بھارت میں دونوں جنگوں کے دوران بلیک آؤٹ ہوتے تھے، کرفیو لگائے جاتے تھے، سائرن اور مشقیں ہوتی تھیں۔ یہ حقیقت اس وقت کے اخبارات کی رپورٹ بتاتی ہے۔ ایک بھارتی جو 71 کی جنگ کے وقت ایک سکول جانے والا بچہ تھا اس نے لکھا تھا کہ "بچگانہ ہیروازم کے لبادے کے پیچھے اصل میں ہم سب بیحد خوف زدہ تھے"۔

https://www.youtube.com/watch?v=eYNHyvskMfk

پلوامہ حملے کے بعد جذبات مشتعل ہونے کی بات قابل فہم ہے، بالخصوص سوشل میڈیا پر جو عوام کیلئے زیادہ قابل رسائی ہے۔ اور غصہ بھی ناجائز نہیں ہے۔ پاکستان کا دہشت گرد تنظیموں کو تحفظ دینا بھارت کیلئے بہت بڑامسئلہ ہے۔ لیکن جارحانہ رویہ اپنانے کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملک کے دوسرے حصوں میں موجود کشمیریوں کو دھمکیاں ملتی رہیں۔ اس جارح مزاج ہیروازم نے وزیراعظم نریندر مودی کی پہلے سے جارح مزاج حکومت پر بھی دباؤ ڈالا کہ کسی نہ کسی طریقے سے جوابی کاروائی کی جائے، بالخصوص انتخابات کے سر پر ہونے کا امر بھی اس میں شامل تھا۔

https://www.youtube.com/watch?v=Kc3KAyjMCus

لیکن جو بات خطرناک دکھائی دے رہی ہے وہ بھارتی اخبارات اور بالخصوص ٹی وی چینلوں کی جانب سے یہ دباؤ پیدا کرنے میں معاونت فراہم کرنا ہے۔ صحافتی ذمہ داریوں کو بھلا کر ہیجانی کیفیت پیدا کی گئی۔ بڑے بڑے صحافیوں نے معروضی صحافت کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دیا اور بھارت کے جوابی وار کرنے کے حق میں ٹویٹس کرنا شروع کر دیں۔ ایک ٹی وی اینکر گوراو ساونت نے ٹویٹ کیا کہ بھارت کو بار بار پاکستان پر حملہ کرنا چاہیے۔ اس دوران آزاد گروہ جو حقائق کو پرکھنے کا کام کرتے ہیں انہیں جھوٹی وڈیوز اور جعلی تصاویر کے مقابلے کی تیز رفتاری کے باعث اپنے کام میں دشواری پیش آئی۔ (یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب بھارتی خبروں کے ٹی وی چینلوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ 2008 کے ممبئی حملے کے دوران ان چینلوں نے کمانڈوز کی دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کو براہ راست نشر کر کے آپریشن کو خطرے میں ڈال دیا تھا)۔