ایک بادشاہ کے ہزاروں غلام، مشیر اور وزیر تھے لیکن ان میں سے ایک غلام ایسا تھا جو ہمیشہ خوش رہتا، چاہے حالات جیسے بھی ہوں قحط سالی ہو جائے خوش۔ اناج بڑھ جائے خوش۔ تنخواہ بڑھ جائے خوش اور اگر کم بھی ہو جائے تو پھر بھی خوش۔ سردی ہو، گرمی ہو، طوفان ہو، بارش یا پھر تیز آندھیاں وہ ہر صورت میں ہمیشہ وقت پر دربار پہنچتا۔ لیکن بادشاہ کو اس کی ہر وقت کی خوشی پر حیرت ہونے لگی اور سوچا کہ بادشاہ میں ہوں، سب کچھ میرے پاس ہے لیکن ہروقت خوش یہ رہتا ہے اور مجھے طرح طرح کی پریشانیاں ہیں۔
بادشاہ کی اس کیفیت کو ایک وزیر نے بھانپتے ہوئے حاضر ہو کر فرمایا حضور کئی روز سے دیکھ رہا ہوں عالی شان پریشانی کے عالم میں ہیں، بتائیے کیا بات ہے؟ بادشاہ نے اپنے اس وزیر کو سارا قصہ سنایا تو وزیر نے پوچھا جناب والا اب یہ بتائیے کہ کرنا کیا ہے؟ بادشاہ نے وزیر سے کہا میں اس شخص کو پریشان دیکھنا چاہتا ہوں؟ وزیر بولے قبلہ آپ بے فکر ہو جاؤ یہ تو معمولی سی بات ہے، بس آپ بہت جلد دیکھ لیں گے کہ یہ غلام کیسے پریشان ہوتا ہے۔ بادشاہ نے کہا جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں اگر نہ کر پائے تو پھر میں آپ کی گردن کٹوا دوں گا۔ وزیر بولا بادشاہ سلامت صرف میری نہیں بلکہ میرے پورے خاندان کی گردنیں اڑا دینا۔
وزیر نے ایک تھیلی لی اس پر ہندسوں میں ایک سو (100) عدد لکھا اور پھر اس میں ننانے (99) سونے کے سکے ڈال دیئے۔ شام ہوتے ہی بادشاہ کو ساتھ لیا، اس غلام کے دروازے کو کٹھکھٹایا اور تھیلی کی گانٹھ ڈھیلی کر کے دہلیز پر رکھ دی اور پھر خود ایک طرف چھپ گئے۔ غلام باہر نکلا ادھر ادھر دیکھا کچھ نظر نہ آیا ماسوائے اس تھیلی کے، اس نے تھیلی اٹھائی اور اندر چلا گیا۔
ادھر بادشاہ نے وزیر سے سرگوشی میں کہا وہ تو تھیلی لے کر چلا گیا۔ آپ نے جو کہا تھا ویسا تو نہیں ہوا، وزیر بولے عالی شان! آپ صبر کیجئے۔ کچھ دیر گزری تو وہ غلام لالٹین لیکر باہر نکلا اور کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا دکھائی دیا۔ کافی دیر تک اپنے دروازے کے سامنے گلی کا سارا حصہ چھان مارا اور پھر دوبارہ واپس اندر چلا گیا۔ ادھر بادشاہ اور وزیر یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے کہ وہ غلام دوبارہ اپنے پورے خاندان سمیت باہر نکلا اور سب لوگ مل کر کوئی چیز تلاش کرنے لگ گئے بہت دیر تک یہ عمل جاری رہا مکمل گلی کو چھاننے کے باوجود کچھ نہ ملا، تو تھک ہار کر گھر میں داخل ہو گئے۔ وزیر نے بادشاہ سے کہا اب چلیے باقی کا تماشہ کل دیکھ لینا۔ بادشاہ نے غصے سے وزیر کو کہا دوبارہ سن لو اگر کل یہ غلام مجھے پریشان نظر نہ آیا تو میں آپ کی گردن اڑا دوں گا۔ وزیر مسکرایا اور بادشاہ کو ساتھ لے کر محل پہنچ گیا۔
بادشاہ کی ساری رات صبح کے انتظار میں گزری، فجر ہوتے ہی کچہری پہنچ گئے۔ نظریں گھمائی سارے غلاموں کو حاضر پایا ماسوائے اس غلام کے جسے وہ پریشان دیکھنا چاہتا تھا۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ غلام آج دربار نہیں آیا۔ لیکن کافی دیر بعد بادشاہ کی نظر اچانک اس غلام پر پڑی، دیکھتے ہیں کہ وہ غلام دربار میں مقررہ وقت سے بہت دیر بعد حاضر ہو رہا ہے۔ جبکہ ان کا منہ لٹکا ہوا ہے، بال بکھرے ہوئے، اور آنکھیں سرخ ہیں۔ بادشاہ نے محسوس کیا کہ واقعی آج پہلی دفعہ یہ غلام بہت زیادہ پریشان نظر آرہا ہے لیکن بادشاہ خاموش رہا اور معمول کے مطابق سب غلاموں کے ذمے کام کاج لگائے جبکہ اس غلام کو اپنے ساتھ رکھ لیا۔ بادشاہ اسے چائے لانے کو کہتا تو وہ پانی لے آتا، کھانے کا کہتا تو کچھ اور لے آتا۔ لانے کچھ اور جاتا مگر لے کچھ اور آتا۔ آخرکار بادشاہ نے غلام کو بلایا اور کہا کہ آج پہلی بار آپ بہت زیادہ پریشانی کے عالم میں نظر آ رہے ہیں۔ بتائیے کیا وجہ ہے؟ غلام نے جھجکتے ہوئے ساری داستان بتاتے ہوئے کہا اس تھیلی کے اوپر ایک سو لکھا ہوا تھا۔ جبکہ اس کے اندر نناوے سکے تھے۔
میرا خیال ہے کہ جب یہ تھیلی میری دہلیز پر رکھی جا رہی تھی تو اس کی گانٹھ ڈھیلی ہونے کی وجہ سے اس میں سے ایک سکہ کہیں گر گیا ہو گا؟ یہی وجہ تھی کہ رات بھر ہم اس سکے کو دروازے کے آس پاس گلی میں ڈھونڈتے رہے اور پوری رات مجھے نیند تک نہیں آئی۔ لہذا اب میں شدید کوفت میں ہوں کہ وہ سکہ آخر کہاں ہو گا؟ بادشاہ نے زوردار قہقہہ لگایا اور کہا وہ تھیلی میں نے رکھوائی تھی اور یہ سارا کھیل ساتھ کھڑے وزیر کا کمال تھا۔
قارئین! کہیں آپ بھی نناوے کے چکر میں تو نہیں؟ کیونکہ ہمارے معاشرے کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے بس صرف کسی ایک چیز کی تلاش میں ہم اللہ تعالی کی باقی لاتعداد نعمتوں کو بھول جاتے ہیں اور جس چیز کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا، اس کے حصول کیلئے اپنا سارا سکون برباد کر دیتے ہیں۔ فرض کریں ہمارے پاس موٹر سائیکل آگیا ہے، تو شکر کرنے کے بجائے ہم چاہتے ہیں کے اب گاڑی آ جائے۔ بلکہ یہ نہیں سوچتے کہ معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پاس موٹر سائیکل تو کیا سائیکل بھی نہیں ہے۔
لہذا اس کہانی کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم نناوے کے چکر سے بچیں اور بجائے ناشکری کے اللہ تعالی کی عطا کردہ تمام نعمتوں سے لطف اندوز ہوں۔ جو مل گیا بہتر جو نہ مل سکا کوئی بات نہیں۔ کیونکہ انسانی زندگی تبھی بہتر ہوتی جب ایک انسان اپنی تمام تر خواہشات و ضروریات اپنے وسائل کے مطابق پورے کرتے ہوئے اس پر خوش رہتا ہے۔
مصنف برطانوی ادارے دی انڈیپنڈنٹ (اردو) کیساتھ بطور صحافی منسلک ہیں۔ اور مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں میں لکھتے رہتے ہیں۔