عدالتی احکامات کے باوجود شہباز شریف کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا

عدالتی احکامات کے باوجود شہباز شریف کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا

مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو عدالتی احکامات کے باوجود بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا۔


اطلاعات کے مطابق امیگریشن حکام اور ایف آئی اے حکام نے اپوزیشن لیڈر اور (ن) لیگ کے صدر شہباز شریف کو لاہور ائیرپورٹ پر روک لیا۔ شہباز شریف لاہور ائیرپورٹ سے قطر روانہ ہورہے تھے جہاں سے انہیں طبی معائنے کے لیے لندن جانا تھا لیکن ائیرپورٹ پر امیگریشن حکام نے انہیں بیرون ملک جانے سے روک دیا۔


حکام نے شہباز شریف سے مکالمہ کیا کہ  ہمارے سسٹم میں آپ ابھی تک بلیک لسٹ ہیں اس پر شہباز شریف نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا آرڈر ہے، ون ٹائم ٹریویل کی اجازت دی ہے۔ اس موقع پر شہباز شریف نے امیگریشن حکام کو عدالت کے احکامات بھی دکھائے اور  عطا تارڑ نے حکام کو عدالتی حکم نامہ پڑھ کر بھی سنایا۔


شہبازشریف نے بیرون ملک جانےکی اجازت نہ دینےکی تحریری وجہ بتانےکامطالبہ کیا تھا جس پر حکام نے انہیں آف لوڈ کیے جانے سے متعلق تحریری طورپرآگاہ کردیا ہے۔آف لوڈ فارم میں بتایا گیا ہےکہ شہبازشریف کےحوالے سے سسٹم ابھی اپ ڈیٹ نہیں ہوا ہے۔ امیگریشن حکام کی جانب سے بیرون ملک روانگی کی اجازت نہ دیے جانے پر شہباز شریف واپس گھر روانہ ہوگئے۔

اس حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا کہ جب لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی اس وقت ایف آئی اے کے دو اہلکار عدالت میں موجود تھے۔ عدالتی حکم میں مسلم لیگ (ن) کے صدر کے قطر جانے والی فلائٹ نمبر کا بھی ذکر کیا گیا۔ 'جب شہباز شریف آج ایئرپورٹ پہنچے تو ایف آئی اے کے عہدیداروں نے انہیں روکا اور کہا کہ وہ سفر نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا نام ایک 'پرسن ناٹ اِن لسٹ' (پی این آئی ایل) فہرست میں ہے۔ ایف آئی اے کا سسٹم عدالتی حکم کے بعد بھی اپ ڈیٹ نہیں ہوا۔

مریم اورنگزیب نے اسے 'بدنیتی' قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کی ترجیحات شہریوں کو بجلی، پانی، چینی اور گندم کی فراہمی کے بجائے ' شہباز شریف' اور سیاسی مخالفین پر مرکوز ہیں۔

انہوں نے دعوٰی کیا کہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر یہ بیان جاری کر رہے ہیں کہ وہ اس حکم کو 'قبول نہیں کرتے' ہیں اور وہ ' شہباز شریف کو روکنے کے لیے مکمل کوششیں' کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ توہین عدالت کے مترادف ہے اور ہم اس پر قانونی تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ شہباز شریف کو بیرون ملک جانے سے روکنے سے حکومت کیا حاصل کرسکتی ہے، حکومت کو جواب دینا پڑے گا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطااللہ تارڑ نے دعویٰ کیا کہ یہاں 'دو پاکستان' ہیں، ایک وہ جہاں وزیر اعظم 'اپنے معاون خصوصی ذوالفقار بخاری کا نام ای سی ایل سے ڈیڑھ گھنٹوں میں نکلوا سکتے ہیں' اور دوسرا جس میں سسٹم عدالتی حکم کے باوجود اپ ڈیٹ نہیں ہوتا۔

عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ جب ہائی کورٹ بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت دے رہی ہے تو شہباز شریف کو اس طرح روکنے کے لیے وزارت داخلہ اور ایف آئی اے کے پاس 'کوئی قانونی جواز' نہیں ہے۔ عدالتی احکامات پر عمل کرنا حکومت کا کام ہے، ایک ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں موجود تھا، آپ کب تک روک سکتے ہیں؟ ہمارے پاس احکامات موجود ہیں اور ہم ان پر عمل درآمد کروائیں گے۔

خیال رہے کہ شہباز شریف نے دو روز قبل لاہور ہائی کورٹ سے اپنا نام ٹریول بلیک لسٹ کی فہرست سے نکلوانے کے لیے رجوع کیا تھا اور ایک بار علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت طلب کی تھی۔ عدالت نے تحریری حکم نامے میں کہا کہ 'ماضی کے رویے اور سفری معلومات کے پیش نظر درخواست گزار کا نام اس وقت ایگزٹ کنٹرل لسٹ (ای سی ایل) پر نہیں ہے'۔

فیصلے میں کہا گیا کہ 'درخواست گزار کا نام بلیک لسٹ میں ہے اور موجود ہو تو بھی درخواست گزار کو ایک مرتبہ 8 مئی 2021 سے 3 جولائی 2021 تک اپنے طبی معائنے کے لیے عدالت کے سامنے کیے گئے وعدے کے تحت برطانیہ جانے سے نہیں روکا جاسکتا'۔

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ ' شہباز شریف نے نواز شریف کے باہر جانے کے لیے یہ گارنٹی عدالت میں جمع کروائی تھی'۔ اب بجائے اس کے کہ شہباز شریف کو جعلی گارنٹی دینے پر نوٹس کیا جاتا اور نواز شریف کو واپس بلایا جاتا، خود شہباز شریف کو باہر بھیجا جارہا ہے۔