سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
میڈیا ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے۔ میڈیا اصل میں ہے کیا؟ مختصر الفاظ میں بیان کیا جائے تو میڈیا عوام کی آواز ہے۔ قوم کے مختلف طبقات میں کس وقت کیا سوچ پنپ رہی ہے، کون سے شر پسند عناصر معاشرے میں انتشار پھیلانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، حکومت کے کس کام سے عوام خوش ہیں اور کون سے کام کی وجہ سے حکومت عوام میں غیر مقبول ہو رہی ہے، یہ ہمیں میڈیا سے ہی معلوم ہوتا ہے۔ یقیناً دیگر اداروں کی طرح میڈیا سے بھی بھول چوک ہو جاتی ہے لیکن وہ پھر اس کی تصحیح کر لیتے ہیں۔

میڈیا کی آزادی اس لئے ضروری ہے کہ اس کے نمائندوں کی رپورٹنگ سے نہ صرف عوام الناس حالات سے باخبر رہتے ہیں بلکہ ملکی ادارے بھی زیرِ زمین ہونے والی کارروائیوں سے آگاہی حاصل کرتے اور بر وقت ان کا تدارک کر سکتے ہیں۔ اگر میڈیا کو شروع سے ہی آزاد رہنے دیا جاتا تو ہم کئی سانحات سے بچ سکتے تھے۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مارشل لائی حکومتوں کیساتھ ساتھ ہماری جمہوری حکومتوں نے بھی میڈیا کو اپنا دشمن جانا اور حسب توفیق اس پر پابندیاں لگائیں۔ جرائد کے ڈیکلیریشن منسوخ کیے گئے اور معروف صحافیوں کو پسِ دیوارِ زنداں بھیجا گیا لیکن کیا اس سے مسئلہ حل ہوا۔ جی نہیں! بلکہ پابندی لگانے والوں کو اس کا الٹا نقصان اٹھانا پڑا۔ اب اسے کیا کہیے کہ بار بار کی ہزیمت کے بعد بھی یہ کھیل اب بھی جاری ہے بلکہ اس میں پہلے سے زیادہ سختی آ گئی ہے۔

پرنٹ میڈیا تو وطنِ عزیز کے قیام سے ہی موجود تھا اور اخبارات مارشل لاء کے ادوار میں بھی چھپتے رہے۔ ایسی کوئی بات جو حکومت وقت کی طبع نازک پر گراں گزرتی ہو اس سے بھی صحافی حضرات بڑی حکمت سے عوام کو آگاہ رکھتے رہے۔ اُس وقت کیونکہ الیکٹرونک میڈیا کے نام پر ملک میں صرف ایک PTV ہی ہوتا تھا اور وہ بھی مکمل طور پر حکومت وقت کے کنٹرول میں ہوتا تھا لہٰذا عوام الناس کی اس میں دلچسپی صرف رات 9 بجے کے خبرنامے یا ڈراموں کی حک تک ہی تھی۔ سابق آمر مشرف کے دور میں جب پرائیویٹ چینلز کھولنے کی اجازت ملی تو یہ کھمبیوں کی طرح اگ آئے۔ ایسے ایسے لوگوں کو بھی چینل کھولنے کی اجازت دے دی گئی جن کا صحافت سے دور کا واسطہ نہیں تھا۔ اس سے یقیناً کچھ خرابیاں بھی در آئیں لیکن اس کا علاج سنسرشپ نہیں بلکہ ان کو ریگولرائز کرنا تھا۔ ان کے لئے کوئی پالیسی بنانا چاہیے تھی جو آج تک نہیں بن سکی۔

آج کہنے کو ایک جمہوری دور ہے۔ انتخابات کے ذریعے ایک حکومت بھی وجود میں لائی جا چکی ہے۔ پھر بھی میڈیا پر پہلے سے بڑھ کر پابندیاں لگانا سمجھ سے باہر ہے۔ کیا اسی میڈیا نے موجودہ حکمرانوں کی چوبیس گھنٹنے لائیو کوریج دکھا کر انہیں اس مقام تک نہیں پہنچایا جس کا اظہار موجودہ وزیر اعظم خود بھی کر چکے ہیں؟ اس وقت ملک میں نہ سکیورٹی کی ایسی صورتحال ہے جس میں کچھ باتوں کا صیغہ راز میں رہنا از حد ضروری ہے اور نہ ہی صحافی حضرات کوئی ایسی بات کہہ یا لکھ رہے ہیں جو ملکی مفاد کے خلاف ہے۔ ظاہر ہے ایسی کوئی بھی بات نہیں۔ تو پھر کیا بات ہے؟

بات دراصل یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو ایک سیاسی پارٹی سے مسئلہ تھا اور وہ اس پارٹی کو دوبارہ انتخابات میں کامیاب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ 2016 سے شروع ہوا کھیل میڈیا کے ذریعے ہی 2018 میں کھل کر عوام کے سامنے آ گیا اور یہی چیز 'شریکوں' کو پسند نہ آئی۔ اسی وجہ سے ان قومی انتخابات میں میڈیا کو پولنگ بوتھ میں جانے کی اجازت نہیں ملی لیکن میڈیا نے کسی نہ کسی طرح اندر وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو عوام کے سامنے رکھ دیا۔ نواز شریف کی گرفتاری دینے کیلئے لندن سے واپسی کو مکمل بلیک آؤٹ کیا گیا۔ یہ بدترین قسم کی سنسزشپ تھا۔ کیا خوف تھا جو عوام کو تاریکی میں رکھا گیا؟ اصل میں میڈیا پر پابندی لگا کر عوام سے یہ چھپانا مقصود تھا کہ نواز شریف اور مریم کو جہاز سے نیب کے لوگوں نے نہیں بلکہ 'شریکوں' نے گرفتار کیا تو کیا کامیابی ہو گئی؟

ہمارے چیف جسٹس صاحب جو ہر مسئلے کو عوامی مسئلہ بنا کر از خود نوٹس لینے بیٹھ جاتے ہیں، وہ بھی اس بدترین سنسرشپ پر ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والی کیفیت میں مبتلا نظر آتے ہیں ورنہ اگر دیکھا جائے تو یہ واقعی عوامی مسئلہ ہے۔ آج اخبارت کے اشتہارات بند کر کے چینلز کو اپنے سٹاف کو نوکریوں سے برخاست کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ جو صحافی اپنے ضمیر کی آواز پر لکھتا اور بولتا ہے اسے نوکری سے نکلوایا جا رہا ہے۔ لوگوں سے رزق حلال کمانے کا ذریعہ چھین لینا کیا عوامی مسئلہ نہیں؟ اس صوتحال پہ ہمارے بڑے بڑے وکلا حضرات دل میں تو پیچ و تاب کھا رہے ہیں لیکن منہ میں گھنگنیاں ڈالے اس تماشے کو دیکھ رہے ہیں۔ کہیں یہ کسی طوفان کی آمد سے پہلے کی خاموشی تو نہیں؟ چیف جسٹس صاحب سے کچھ کہنا عبث ہے۔ بس انکی خدمت اتنا ہی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ؛

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔