'انتخابات کے بعد ن لیگ کی سربراہی میں PDM کا فیز ٹو شروع ہو گا'

ذرائع کا کہنا ہے کہ جو پرانا حکومتی ڈھانچہ تھا کم و بیش وہی برقرار رہے گا جس میں کچھ وزارتیں ن لیگ، کچھ پیپلز پارٹی اور کچھ دیگر پارٹیوں میں تقسیم ہوں گی۔ اسی انتظام کو آگے بھی چلایا جائے گا اور امکان ہے کہ وزرات خارجہ پیپلز پارٹی یعنی بلاول بھٹو کے پاس جائے گی۔

'انتخابات کے بعد ن لیگ کی سربراہی میں PDM کا فیز ٹو شروع ہو گا'

8 فروری کے انتخابات کے بعد چند ایک چھوٹی تبدیلیوں کے ساتھ پی ڈی ایم کا ' فیز ٹو' شروع ہونے والا ہے جس میں پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام ف اور ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتیں اتحاد کا حصہ ہوں گی اور ن لیگ اس اتحاد کی سربراہی کرے گی۔ یہ انکشاف کیا ہے سینیئر صحافی کامران یوسف نے۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں کامران یوسف نے بتایا کہ عام انتخابات سے قبل یہی تاثر مل رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کامیابی حاصل کرے گی اور نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنیں گے۔ اگرچہ ماضی کے معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے شاید اکثریت کو اس بات پر یقین نہیں ہو گا کیونکہ تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کا ہر دور میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اختلاف پیدا ہوا اور ان کے اقتدار کے خاتمے کی وجہ بھی اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف ہی بنی۔ لیکن پاکستان کی سیاست میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ 2013 کے انتخابات کے وقت بھی یہ تاثر تھا کہ چاہے مسلم لیگ ن الیکشن جیت بھی جائے، اسٹیبلشمنٹ کبھی بھی نواز شریف کو تیسری مرتبہ وزیر اعظم نہیں بننے دے گی لیکن اس کے باوجود نواز شریف وزیراعظم بنے۔ اس مرتبہ بھی نواز شریف کو ملنے والے پروٹوکول اور اداروں کی جانب سے دی جانے والی سہولت سے واضح اشارہ مل رہا ہے کہ نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین اختلافات ختم ہو گئے ہیں اور وہ وزیر اعظم بننے والے ہیں۔

صحافی نے کہا کہ گذشتہ روز ایم کیو ایم کے ایک وفد نے ن لیگ کی سینیئر قیادت سے لاہور میں ملاقات کی۔ بنیادی طور پر ایم کیو ایم جیسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ہدایات ملنے پر ہی آگے بڑھتی ہیں۔ ایم کیو ایم کا انتخابات سے پہلے نواز شریف سے ملنا اور ن لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور مستقبل میں اتحادی جماعت کے طور پر کام کرنے کا بیان بھی اس بات کی واضح نشانی ہے۔ فاروق ستار نے یہ بھی کہا کہ ایم کیو ایم اپوزیشن میں بھی بیٹھی ہو گی تب بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ تعاون کرے گی۔ تاہم ایم کیو ایم ہمیشہ چڑھتے سورج کو سلام کرتی ہے، وہ کبھی اپوزیشن میں نہیں بیٹھے گی بلکہ ن لیگ کے ساتھ اتحاد کرے گی۔ تاہم یہ بھی دیکھا جائے گا کہ کس پارٹی کی اکثریت ہو گی یا اگر مخلوط حکومت ہو گی تو کون اس کو لیڈ کرے گا۔

صحافی نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے بار بار یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ انہیں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی اور ن لیگ کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کہیں پسِ پردہ ڈیل ہو گئی ہے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو نقصان ہو سکتا ہے۔ لیکن میری رائے کے مطابق یہ سب آنکھوں کا دھوکہ ہے یعنی بظاہر ہونے والی لفظی جنگ اور تنقید کے باوجود نواز شریف اور آصف زرداری کا آپس میں رابطہ ہے۔ جب عمران خان کو اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے بعد اقتدار سے نکالا گیا تھا تو اس کے بعد 10 سے 11 پی ڈی ایم جماعتوں کی مخلوط حکومت بنی تھی جس کو مسلم لیگ ن لیڈ کر رہی تھی۔ 8 فروری کو عام انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کا جو خاکہ سامنے آ رہا ہے وہ بھی پی ڈی ایم حکومت جیسا ہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ ن اس اتحادی حکومت کو لیڈ کرے گی۔ بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں کی جانب سے ن لیگ پر کڑی تنقید کے باوجود پیپلز پارٹی بھی ن لیگی حکومت کا حصہ ہو گی۔ مولانا فضل الرحمان ہمیشہ سے ہی ن لیگ اور نواز شریف سے زیادہ قریب رہے ہیں تو وہ بھی حکومت کا حصہ ہوں گے۔ ایم کیو ایم نے بھی ن لیگی قیادت سے ملاقات میں مل کر کام کرنے کی بات کی ہے کیونکہ انہیں واضح اشارہ مل رہا ہے کہ کس کی حکومت بنے گی۔

اب سوال یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ مسلم لیگ ن کو ملنے کے بعد پیپلز پارٹی کو کیا ملے گا؟ ذرائع کا کہنا ہے کہ جو پرانا حکومتی ڈھانچہ تھا کم و بیش وہی برقرار رہے گا جس میں کچھ وزارتیں ن لیگ، کچھ پیپلز پارٹی اور کچھ دیگر پارٹیوں میں تقسیم ہوں گی۔ اسی انتظام کو آگے بھی چلایا جائے گا اور امکان ہے کہ وزرات خارجہ پیپلز پارٹی یعنی بلاول بھٹو کے پاس جائے گی۔ لیکن اس میں کچھ ابہام بھی ہے کیونکہ جب شہباز شریف وزیر اعظم بنے تو انہوں نے بلاول بھٹو کو وزارت خارجہ کا قلمدان دیا۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو اکثر ایک دوسرے کی تعریف بھی کرتے دکھائی دیتے تھے۔ لیکن اگر نواز شریف وزیر اعظم بنے تو شاید صورت حال کچھ مختلف ہو گی کیونکہ ماضی کی پریکٹس کو دیکھا جائے تو وزارت خارجہ کا قلمدان یا تو وہ اپنے پاس رکھتے ہیں یا اپنے بے حد قریبی اور قابل اعتماد شخص کو یہ ذمہ داری سونپتے ہیں۔

2013 میں وزارت خارجہ کا قلمدان نواز شریف نے اپنے پاس رکھا اور ایڈوائزر سرتاج عزیز کو بنایا۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اختلافات میں ایک فیکٹر ان کی خارجہ پالیسی ہوتی تھی، خاص طور پر بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی ان بن ہوتی تھی۔ یہ بھی امکان ہے کہ اگر نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بنے تو بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے ایک مرتبہ پھر کوشش کریں گے جس کے لیے وزارت خارجہ کا قلمدان وہ اپنے پاس رکھیں گے یا اپنے کسی قابل اعتماد ساتھی کو دیں گے۔ لہٰذا کم و بیش منظرنامہ تقریباً پہلے جیسا ہی ہو گا۔ ممکنہ طور پر حکومت ن لیگ کی بنے گی اور وزیر اعظم نواز شریف ہوں گے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی لفطی جنگ کے باوجود دونوں جماعتوں کی سینیئر قیادت بہت زیرک ہے اور سب کو علم ہے کہ آصف علی زرداری انتہائی چالاک اور سمجھدار سیاست دان ہیں۔ پیپلز پارٹی کو علم ہے کہ اپوزیشن میں رہ کر فائدہ نہیں ہو گا اور بظاہر آئندہ آنے والی حکومت 5 سال کے لیے آئے گی۔ اس دوران وہ سندھ حکومت اپنے پاس رکھنا چاہیں گے۔ ساتھ ساتھ اگر وفاقی حکومت میں بھی کچھ حصہ ملے گا تو وہ ان کے لیے اچھا ہو گا۔ 

موجودہ صورت حال کے مطابق یہی لگ رہا ہے کہ چند ایک چھوٹی تبدیلیوں کے ساتھ پی ڈی ایم کا ' فیز ٹو' 8 فروری کے انتخابات کے بعد شروع ہونے والا ہے جس میں پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام ف اور ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتیں اتحاد کا حصہ ہوں گی جس کی سربراہی پاکستان مسلم لیگ ن کرے گی۔