Get Alerts

'ٹرائیکا عملاً ٹوٹ چکا، عمران خان بطور وزیر اعظم پانچ سال پورے نہیں کر سکیں گے'

'ٹرائیکا عملاً ٹوٹ چکا، عمران خان بطور وزیر اعظم پانچ سال پورے نہیں کر سکیں گے'
مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ اعتماد اور ٹرائیکا عملاً ٹوٹ چکا ہے، اب اس کے بعد تنزلی ہے، میرا خیال ہے عمران خان بطور وزیراعظم اپنے پانچ سال پورے نہیں کر سکیں گے۔

مرتضیٰ سولنگی نیا دور ٹی وی کے پروگرام '' خبر سے آگے'' میں عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہونے والی مبینہ چپقلش کے بارے میں اپنا تجزیہ پیش کر رہے تھے۔

اس موقع پر پروگرام کے دوران شریک گفتگو ہوتے رضا رومی نے پاکستانی سیاست کی تاریخ کے کچھ اوراق کھولے اور کہا کہ ماضی میں سابق وزیراعظم جونیجو اور ضیاء الحق کے درمیان بھی اسی قسم کا معاملہ ہوا تھا، اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے، سپریم کورٹ نے جونیجو کو بحال نہیں کیا تھا۔

رضا رومی کا کہنا تھا کہ 90ء کی دہائی میں بالکل یہی صورتحال میاں نواز شریف اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بنتی رہی، وہ سپریم کورٹ سے بحال بھی ہوگئے لیکن اس کے باوجود انھیں نکال دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ صورتحال میں تاریخ خود کو دہرا سکتی ہے؟ تو اس کا جواب ہاں میں ہے کیونکہ تاریخ یہی کہتی ہے کہ جو طاقتور ہے وہی غالب آتا ہے۔

نجم سیٹھی نے موجودہ صورتحال پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ دکھائی تو یہی دے رہا ہے کہ عمران خان کی گھڑی ٹک ٹک کرنا شروع ہو چکی ہے۔ ماضی میں ایسی سچویشن میں اسٹیبلشمنٹ کے پاس محترمہ بینظیر بھٹو کی آپشن موجود رہتی تھی۔

انہوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ 1990ء میں جب محترمہ بینظیر بھٹو کو نکالا گیا تو نواز شریف کو لے آئے، اس کے بعد جب 1993ء میں نواز شریف کو نکالا تو بینظیر بھٹو آ گئیں، جب 1996ء میں بینظیر بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تو نواز شریف 1997ء میں آگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ پرابلم یہ ہے اس وقت دو پارٹی سسٹم تھا، اب صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اس پوزیشن میں ہی نہیں ہے کہ وہ ووٹ حاصل کرکے آپشن بن جائے، اب وہ ایک علاقائی جماعت بن چکی ہے۔

نجم سیٹھی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی بات کی جائے تو اسے بہت توڑنے اور کمزور کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ آج بھی زندہ رہ کر دندنا رہی ہے، اگر کسی وجہ سے اس کا ووٹ بینک کم ہو رہا تھا تو وہ بھی اب بڑھنا شروع ہو چکا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوام کو یہ پتا چل چکا ہے کہ ن لیگ کیساتھ زیادتی کی گئی تھی، حالیہ ضمنی اور کنٹونمنٹ انتخابات نے یہ چیز واضح کر دی ہے کہ اگر آج الیکشن ہوں تو میاں نواز شریف کی جماعت سوئپ کر جائے گی۔

مستقبل کی پیش بندی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر کسی وجہ سے وزیراعظم عمران خان کا اقتدار ختم ہو جاتا ہے تو پیچھے تو صرف نواز شریف ہی رہ جاتے ہیں لیکن ان کے اسٹیبلشمنٹ کیساتھ بہت سیریس قسم کے جھگڑے چل رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو حالیہ جھڑپ ہوئی، یہ اس سے بہت سیریس ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کیلئے مشکل کھڑی ہو چکی ہے کہ انہوں نے اپنے لئے کوئی آپشن ہی نہیں چھوڑا جبکہ عمران خان کو بھی اس صورتحال کا اندازہ ہے، اس لئے وہ اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دکھا رہے ہیں کہ مجھے نکالیں گے تو پیچھے نواز شریف ہے جو آرٹیکل 6 لگانے کی باتیں کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 2013ء کے الیکشن صاف اور شفاف تھے جن میں نواز شریف نے کامیابی حاصل کی لیکن 2018ء کے الیکشن میں عمران خان کو جتوایا گیا تھا۔ عمران خان یہ بات بھی اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اب اگر کوئی بحران آیا تو اسٹیبلشمنٹ انھیں اس طریقے سے سپورٹ نہیں کرے گی۔

نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں اب ن لیگ کیساتھ رابطے دوبارہ شروع کئے جائیں گے کیونکہ آپشن تو بنانا ضروری ہے، ان کیلئے ایک ہی آپشن بچتا ہے جس کا نام شہباز شریف ہے، ان کیساتھ ہی کوئی مک مکا کرنا پڑے گا۔ دوسری جانب خان صاحب کے پاس اب یہی آپشن بچا ہے کہ وہ ایسے ہی حکومت چلائیں تاکہ کوشش کرکے ایک سال اور کاٹ جائیں۔