اس کا انتخاب کسی اور نے نہیں بلکہ عمران خان نے خود کیا تھا۔ اس کا آغاز 2014 میں ہوا تھا اور یہ کسی نہ کسی صورت میں اب بھی جاری ہے۔ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اپوزیشن کے مارچز کا مقابلہ کرنے کے لیے چوک چوراہوں کے نمائشی پروگراموں ہی کا سہارا لیا تھا۔ ان کا بیانیہ پچھلے 26 سالوں سے عمومی طور پر اور پچھلے 10 سال سے خاص طور پر بالکل ایک جیسا ہے جس میں شور شرابے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
اب موجودہ صورت حال میں بھی قومی اسمبلی میں ایک دو ووٹوں کے فرق کے ساتھ ان کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے مگر اس کے باوجود وہ اسمبلی کا رخ کرنے سے انکاری ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ استعفے دے چکے ہیں اور جن کے استعفے سپیکر نے قبول کئے اور الیکشن کمیشن نے ضمنی الیکشن کا شیڈول دیا ہے ان سیٹوں پر ان کے ممبران عدالت عالیہ اسلام آباد پہنچ گئے ہیں اور ان کی استدعا ہے کہ ان کے استعفوں کو کالعدم قرار دے کر ان کی رکنیت کو بحال کیا جائے۔ اس پر چیف جسٹس صاحب نے مزید بحث سے پہلے یہ شرط رکھ دی ہے کہ وہ اپنی نیت کو واضح کریں کہ آیا وہ پارٹی کے ڈسپلن پر چلتے ہوئے اسمبلی سے غیر حاضر رہنا چاہتے ہیں یا پھر وہ اپنی رکنیت بحالی کے بعد اسمبلی میں حاضری کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔
اس طرح وہ ممبران بری طرح سے پھنس گئے ہیں جو جماعت کی پالیسی کے خلاف آگے بڑھ کر اگر اسمبلی پہنچتے ہیں تو جماعت کی طرف سے تادیبی کارروائی کا نشانہ بن سکتے ہیں اور اگر اسمبلی نہ جانے کی بات کرتے ہیں تو پھر ان کی رکنیت کی بحالی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اب دیکھیں وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں یہ اگلے چند دنوں میں پتا چل جائے گا۔ اگر ساری جماعت اسمبلی میں جانے کا فیصلہ کرتی ہے تو پھر نئے الیکشن کا مطالبہ اپنا جواز کھو بیٹھتا ہے اور اگر وہ اسمبلی کا رخ کرتے ہیں تو پھر انہیں "کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے" جیسے طعنوں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔
عمران خان قومی اسمبلی سے باہر رہ کر نہ صرف اپنے 12 کروڑ ووٹرز کو دھوکہ دے رہے ہیں بلکہ اپنے بیانیے کو بھی زک پہنچا رہے ہیں۔ ایک جانب وہ اسمبلی سے استعفوں کا اعلان کرتے ہیں اور دوسری طرف مراعات بھی لے رہے ہیں۔ جب ضمنی الیکشن کی تاریخ دی جاتی ہے تو پھر ان اپنی ہی چھوڑی ہوئی سیٹوں پر دوبارہ الیکشن میں حصہ لینے کا بھی اعلان کرتے ہیں اور پھر سے چناؤ کے بعد اس اسمبلی کا حصہ بھی بننے کے لیے تیار ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوبارہ رکنیت حاصل کرنے سے صورت حال بدل جائے گی؟
سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس وقت بھی پاکستان کے تین صوبوں، گلگت بلتستان اور کشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ وہاں کی اسمبلیاں ان کو پیاری ہیں۔ وہاں سے استعفے نہیں دے رہے اور محض مرکز کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے ہر حربہ آزمانے پہ تلے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے وہ چوکیدار کو بھی للکار رہے ہیں اور عدلیہ کو بھی جوش دلا رہے ہیں کہ وہ اس گھر کے خود ساختہ مالک ہیں اور انہیں یہ قبضہ واپس دلایا جائے۔ کئی من گھڑت بیانیوں کا سہارا بھی لے رہے ہیں۔ خیر یہ ان کی اپنی حکمت عملی ہے اور اس میں وہ جمہوری حق کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔ س میں ان کو جمہوریت کے اصولوں اور آئینی پاسداری کے تحت کہیں تو بریک لگانی ہوگی اور یہ بریک مذاکرات کے علاوہ نہیں لگ سکتی۔ موجودہ سیاسی صورت حال اور عمران خان کے رویے سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ نئے الیکشن بھی موجودہ سیاسی عدم استحکام سے چھٹکارا دلانے میں ناکام رہیں گے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ موجودہ الیکشن کمیشن کو بھی برا بھلا کہتے ہیں اور اس پر بھی عدم اعتماد کیے ہوئے ہیں۔ اگر کہیں سے ان کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو جج کو بھی للکار دیتے ہیں۔ اس عدم اعتماد کی فضا میں ادارے بھی عمران خان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ جس رستے کا انہوں نے خود چناؤ کیا ہے وہ چوک چوراہوں سے آگے کہیں نہیں جاتا اور نہ ہی اس کا کوئی نتیجہ حاصل ہوگا۔ 2014 میں جب انہیں اداروں کی کھلم کھلا حمایت بھی حاصل تھی تو اس وقت بھی یہی سیاسی جماعتیں جو اب حکومت میں ہیں، وفاقی حکومت میں تھیں اور کئی ماہ کے دھرنے بھی کچھ حاصل نہ کر سکے تھے۔ اب تو نہ وہ اداروں کی مدد موجود ہے اور نہ ہی وہ حالات ہیں کہ ان کو آزادانہ طور پر ڈی چوک یا پارلیمنٹ پہنچنے دیا جائے گا۔ فرض کر لیں اگر وہ اسمبلی کے سامنے پہنچ بھی جاتے ہیں تو وہ کیا حاصل کر لیں گے؟ میرے خیال میں انیہں کچھ نہیں ملے گا۔
9 اپریل 2022 کی رات کو چند گاڑیاں اور جیل کی بکتر بند گاڑی دیکھ کر ان سمیت ان کے سب وزرا اور سپیکرز کے اعصاب شل ہو گئے تھے اور وہ اپنی جان چھڑوا کر وہاں سے نکلتے نظر آئے تھے۔ تو اب تو حکومت ہی ان کے پاس ہے اور آئینی اختیارات بھی ان کے پاس ہیں تو صوبوں کی حمایت اس قدر ہی مدد گار ثابت ہوسکتی ہے کہ وہ ان کو آزادانہ طور پر لوگوں کو اسلام آباد پہنچنے میں حمایت یا کمک مہیا کریں۔ مگر ان کے پاس کوئی آئینی اختیار تو نہیں کہ وہ وفاقی حکومت پر اثر انداز ہوسکیں جب کہ دوسری طرف وفاقی حکومت کے پاس آئینی اختیارات موجود ہیں جن کے استعمال سے وہ صوبائی حکومتوں پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ وفاقی حکومت اپنے گورنروں کے ذریعے سے کافی حد تک اختیارات استعمال کر سکتی ہے۔ مرکز کے ساتھ چپقلش کی صورت میں وہ صوبوں کے فنڈ روک سکتے ہیں یا انہیں کم کر سکتے ہیں۔
یہ جو راستہ عمران خان نے چنا ہے، اس میں اعصاب کو تھکانے کے علاوہ کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ ان کے بیانیے اور حکمت عملی میں آج وہ جان نہیں ہے جس کے ذریعے وہ حکومت کو مجبور کر سکیں۔ حکومت شاید یہی چاہتی ہے کہ وہ ان کو دوڑا دوڑا کر تھکا دے۔ اس دوران بہتر کارکردگی دکھا کر اور عوام کی مشکلات کم کرکے اسے ہمدردی سمیٹنے کا موقع مل جائے اور وہ اس میں کامیاب بھی جا رہے ہیں۔ پٹرول سستا کردیا ہے، ڈالر نیچے آ رہا ہے، سٹاک مارکیٹ میں بہتری آرہی ہے اور عمران خان کے راز فاش ہو رہے ہیں جس سے صورت حال یکسر بدلتی جا رہی ہے اور اب عمران خان کو عوام سے حلف لینے پڑ رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت عمران خان کی مقبولیت سے مشروط ہے۔ جب ان کی ذات پر انگلیاں اٹھنی شروع ہو جائیں گی، صادق و امین کی حیثیت بحال رکھنا مشکل ہو جائے گا اور ان کی کردار کشی سے ان کی مقبولیت کو جھٹکا لگے گا تو سب کچھ دھڑام سے نیچے آ پڑنے کے خدشات سے بھی انکار ممکن نہیں۔ حکومت ان کے دور حکومت میں کی گئی بد عنوانیوں کو بھی اندر ہی اندر سے آئین و قانون کے سپرد کرتی جا رہی ہے جس سے اب چوک چوراہوں کے ساتھ ساتھ عدالتوں میں بھی چکر لگانے ہوں گے۔ یہ سلسلہ اب شروع ہو چکا ہے اور مختلف مقدمات میں عمران خان کو نوٹس ملنا بھی شروع ہو گئے ہیں۔
اس مقبولیت میں مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کا بھی بہت کردار ہے اور کچھ لوگ صرف دوسری سیاسی جماعتوں سے مایوس ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ ہیں۔ جب پی ڈی ایم نے کارکردگی دکھا کر اپنی ساکھ کو بہتر بنا لینا ہے تو پھر بہت ساری ہمدردیاں تو ویسے ہی ختم ہو جائیں گی اور پھر آہستہ آہستہ ان کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھنا شروع ہو جائیں گے جو ابھی ان کے سازشی بیانیوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔ جب عمران خان کے سازشی بیانیوں کا مؤثر جواب دے کے انہیں ختم کر دیا جائے گا تو پھر کارکردگی کا مقابلہ کارکردگی سے ہوگا۔ اس طرح دیکھا جائے تو اگلے چند ماہ میں پی ڈی ایم کا پلڑا ان سے بھاری بھی ہوسکتا ہے۔
ان کے پرانے حمایتی جو اداروں میں بیٹھے ہوئے ہیں ان میں سے کئی اپنی آئینی مدت پوری کر جائیں گے تو کئی مفاد کم ہوتا دیکھ کر نظریں اور سوچیں بدل لیں گے۔ وہ اپنا محفوظ مستقبل ڈھونڈنے کی کوشش میں لگ جائیں گے اور عمران خان اگر اب بھی نہ سنبھلے تو پھر چوک چوراہے ہی ان کا نصیب بن کر رہ جائیں گے اور مداریوں کی طرح تماشے دکھانے کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔