پی ڈی ایم ہمیشہ موقعے سے فائدہ اٹھانے میں دیر کیوں کر دیتی ہے

پی ڈی ایم ہمیشہ موقعے سے فائدہ اٹھانے میں دیر کیوں کر دیتی ہے
ابھی پی ڈی ایم جماعتیں حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے آئینی آپشنز پر غور کر رہی تھیں کہ تحریک انصاف نے ایسا پنڈورا باکس کھول دیا کہ پی ڈی ایم کے لیے آپشنز محدود تر ہوتے چلے گئے۔ ایک طرف عمران خان دھمکیاں لگانے لگے کہ ان جماعتوں میں میرے خلاف عدم اعتماد لانے کی سکت ہی نہیں اور دوسری طرف تحریک انصاف نے بیانیہ بنایا کہ اپوزیشن دراصل غیر ملکی اشاروں پر حکومت کو گھر بھیجنا چاہتی ہے۔ یہ صورت حال پی ڈی ایم کے لیے آگ کا دریا تھی، آگے بڑھنے پر غیر ملکی ایجنٹ ہونے کے طعنے اور پیچھے ہٹنے پر خان صاحب کے قہقہے۔ اسی کشمکش میں اپوزیشن آگے بڑھی، آئینی طریقہ کار سے عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی اور تحریک انصاف کے آئینی کھلواڑ کے باوجود عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ٹھہری۔ پی ڈی ایم نے آئین شکنی کا تماشا دیکھا تو سہی لیکن مجال ہے جو اس آئینی غداری کو اپنے بیانیے کا حصہ بنا سکی ہو یا عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو سکی ہو کہ صاحبان آئین توڑا گیا ہے گملا نہیں۔۔۔

غالباً اسی کمزوری کو بھانپتے ہوئے تحریک انصاف نے پی ڈی ایم کی 'ٹکور' کرنے میں دن رات ایک کر دیے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
پی ڈی ایم کے ہاتھ میں کئی ایک موقعے لگے کہ جن کے مؤثر استعمال سے پی ٹی آئی کا بے قابو ہو چکا جن بوتل میں بند کیا جا سکتا تھا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ سالوں سے التوا کا شکار ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس انجام کو پہنچا اور تحریک انصاف کو ممنوعہ فنڈنگ کا وصول کنندہ ثابت کر دیا گیا۔ اس سے ذرا پہلے لاغر الیکشن کمیشن کو فنانشل ٹائمز کی جان دار سٹوری سے کچھ جان ملی کہ جس میں پی ٹی آئی کے ممنوعہ فنڈنگ میں ملوث ہونے کے واضح ثبوت میسر آ گئے۔ لیکن پی ڈی ایم نہ تو فنانشل ٹائمز کی خبر کا خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکی اور نہ ہی الیکشن کمیشن کی نیم دلانہ بہادری کو اخلاقی و قانونی امداد مہیا کر پائی۔ ایک جانب تمام حکومتی اراکین اور سیاسی مبصرین کی پیش گوئیاں تھیں کہ عمران خان اس کیس میں نا اہل ہو جائیں گے اور دوسری طرف اکیلے فواد چودھری کا مؤقف تھا کہ 'آپ کا باپ بھی عمران خان کو نااہل نہیں کر سکتا'۔ پھر سب نے دیکھا کہ کیا ہوا۔

کچھ ہی دن گزرتے ہیں اور عمران خان کے 'ایبسولوٹلی ناٹ' کے غبارے میں بھری گئی ہوا میں موہوم سا چھید ہو جاتا ہے جب امریکی سفیر تحریک انصاف کے زیرانتظام صوبے کا نہ صرف دورہ کرتے ہیں بلکہ 'با غیرت' حکومت کو 36 گاڑیوں کا تحفہ بھی عنایت کرتے ہیں۔ اس چھید کو لا یعنی توجیحات سے پیوند لگانے کی کوشش تب بے سود ثابت ہوئی جب عمران خان کی امریکی سفیراور سابق سی آئی اے آفیشل سے ملاقات کی خبریں گرم اڑیں۔ لیکن جہاں ان ملاقاتوں میں بھی پی ٹی آئی ملکی مفاد کا عنصر ڈھونڈ نکالتی ہے تو وہیں حکومت پرانے اللے تللوں کو ہی بروئے کار لا کر یہ سمجھ بیٹھتی ہے کہ بس اب تو تحریک انصاف اپنی موت آپ مرے کہ مرے۔ لیکن ایک بار پھر اندازے غلط ثابت ہوئے اور انقلابی جماعت اس مشکل مرحلے سے بھی نہا دھو کر سرخرو نکل آئی۔

آڈیو لیک کے قصے کھلنے لگے تو پی ٹی آئی کی سوشل میڈیائی توپوں نے محض چوبیس گھنٹوں میں غداری و ملک دشمنی کے فتوے ہاتھوں ہاتھ بانٹ ڈالے۔ لیکن ہیکر شاید 'نیوٹرل' تھا، اگلے ہی دن اس نے عمران خان کی آڈیو بھی لیک کر دی جس میں مجوزہ سائفر کے معاملے پر کھیلنے کا پلان بیچ چوراہے پھوٹ گیا۔ پی ڈی ایم کے پاس شاید اس سے نادر موقع نہ تھا لیکن دو ہفتے گزرنے کو ہیں، تحریک انصاف نے آڈیو لیک سے بھی ایسے ہی کھیلا جیسے سائفر سے کھیلا جبکہ پی ڈی ایم ایسی بے بس نظر آئی کہ پریس کانفرنسوں میں اپنی صفائیاں دیتی نظر آئی۔ اب جبکہ سائفر اور ہارس ٹریڈنگ سے متعلق بھی آڈیو لیکس سامنے آ چکی ہیں لیکن پی ڈی ایم اب بھی کسی مسیحا کی تلاش میں ہے۔

متذکرہ بالا معاملات کے علاوہ توشہ خانہ کے چمتکار ہوں، خان صاحب کی نیوٹرلز کو للکار ہو یا پی ٹی آئی رہنماؤں کی ٹاک شوز میں ذومعنی جملوں سے یلغار، پی ڈی ایم کسی طور بھی ان مواقع سے سیاسی فائدہ نہیں اٹھا سکی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم نے سوشل میڈیا کا مؤثر استعمال نہیں کیا اور نہ ہی کسی سکینڈل کو کسی سے 'لنک' کیا جا سکا۔ جیسے ایک زرداری سب پر بھاری ہے، اسی طرح اکیلی پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا مینجمنٹ تمام پی ڈی ایم جماعتوں پر بھاری ہے۔

پی ٹی آئی کی دانستہ بچھائی گئی معاشی بارودی سرنگوں کو درست کرنے کے اقدامات کے نتیجے میں ہوش ربا مہنگائی، بھاری بھرکم بجلی کے بلوں جیسے مسائل سامنے آئے اور رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کر دی۔ ان اقدامات نے بھی پی ڈی ایم کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا اور منجھلے و منچلے یہ ماننے کو تیار نہیں کہ مسائل کی داغ بیل خان صاحب ڈال کر گئے تھے۔

ہاتھ لگے تمام تر مواقع کو کیش نہ کرا پانے کا نتیجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی آئے روز اسلام آباد پر 'جہادی مارچ' کرنے کے لیے پر تول رہی ہے اور پی ڈی ایم حکومت یا تو دعاؤں پر تکیہ کیے ہوئے ہے یا پھر غیبی امداد کی منتظر ہے۔ یہ اب پی ڈی ایم پر منحصر ہے کہ وہ اس سیاسی اکھاڑے میں پی ٹی آئی کی طرح ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلے گی یا برتری ملنے کے باجود ٹیسٹ میچ والی ٹک ٹک جاری رکھے گی۔