پاکستان اور ہندوستان کی دشمنی نے ماریہ اور علیم کو ایک دوسرے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا کر دیا

پاکستان اور ہندوستان کی دشمنی نے ماریہ اور علیم کو ایک دوسرے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا کر دیا
یہ 2018 کا واقع ہے۔ کراچی کے ایک پشتون گھرانے سے تعلق رکھنے والی ماریہ علیم کراچی کے مختلف مقامات پر اپنے بیمار شوہر کے لئے فنڈز اکٹھا کر رہی تھی اور کچھ عرصہ قبل ان کا انٹرویو ٹی وی پر چلنے کے بعد ماریہ علیم منظر عام پر آ گئیں۔

ماریہ علیم کراچی کے ایک پشتون گھرانے میں پیدا ہوئیں اور اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے بعد ایک سکول میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئیں۔ علیم جونیجو کا تعلق سندھ سے تھا اور وہ کراچی کے نجی بینک میں نوکری کر رہے تھے۔ ماریہ علیم اور علیم جونیجو نے کچھ سال پہلے محبت کی شادی کی اور ہنی مون کے لئے شہر اقتدار کا انتخاب کیا جس کی تصویریں سوشل میڈیا پر ڈال دی گئیں اور لوگوں نے اس جوڑے کی خوشیوں کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔

شادی کے تقریباً ایک سال بعد علیم کی طبیعت خراب ہونے لگی اور تشخیص کے بعد پتہ چلا کہ علیم پھیپروں کے عارضے میں مبتلا ہے جس کی پیوند کاری کے لئے دو کروڑ تک رقم درکار ہے۔ ماریہ علیم نے سوشل میڈیا پر علیم کے علاج کے لئے لوگوں سے اپیل کی اور دو مہینے سے کم وقت میں ماریہ علیم نے دو کروڑ سے زیادہ کے عطیات وصول کیے۔ عطیات وصول کرنے کے بعد ماریہ علیم کو صحت کے ماہرین نے بتایا کہ ان پیسوں میں علاج صرف ہندوستان میں ممکن ہے۔ ماریہ علیم نے کراچی سے اسلام آباد کے لئے فلائٹ لی کیونکہ علیم کی طبیعت بہت خراب تھی اور پاکستان میں واقع انڈین ہائی کمیشن میں میڈیکل ویزے کے لئے درخواست دی مگر کمیشن نے اُن کو ویزہ دینے سے انکار کیا۔ انڈین ہائی کمیشن کے ویزہ نہ دینے کے بعد انھوں نے اس وقت کی بھارتی وزیر خارجہ سشما سواراج اور پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو کئی خطوط لکھے کہ ان کے شوہر کی زندگی خطرے میں ہے مگر نہ پاکستان کے وزیر خارجہ کی جانب سے کوئی جواب آیا اور نہ ہی ہندوستان کی وزیر خارجہ کی جانب سے۔

ماریہ علیم نے پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن اور ہندوستان کی انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطے کیے مگر ماریہ کو ایک یہی جواب ملا کہ پاکستان اور ہندوستان کی موجودہ تلخ سیاسی صورتحال کے پیش نظر کسی بھی صورت ویزہ ملنا ناممکن ہے۔ ماریہ علیم نے ویزے کے لئے دوبارہ کوشش کی مگر دوبارہ ان کو انکار کیا گیا۔

ماریہ علیم سے میری ملاقات سال 2019 کے شروع میں ہوئی جب کراچی کے ایک صحافی دوست سید نعمان الحق نے مجھے بتایا کہ ماریہ علیم اسلام آباد میں ہیں اور ان کی رہائش کا بندوبست کیا جائے۔ ماریہ علیم کے ساتھ اسلام آباد کی کراچی کمپنی مارکیٹ میں کھانا کھایا اور اسلام آباد کے یوتھ ہاسٹل میں ان کی رہائش کا بندوبست کیا۔ ماریہ علیم سے میں نے پوچھا آپ کے پاس کروڑوں میں فنڈز ہیں آپ کسی اچھے ہوٹل میں رہائش کیوں اختیار نہیں کرتیں، جس پر انھوں نے جواب دیا کہ میں جب اپنے شوہر کی صحت کے لئے عطیات جمع کر رہی تھی تو میں ہر پل روئی ہوں کیونکہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنھوں نے مجھے سو اور پچاس روپے دیے تو میں کیسے ان کو اپنے آرام کے لئے استعمال کر سکتی ہوں؟

ماریہ علیم نے مزید کہا کہ میں یہ پیسے استعمال نہیں کر سکتی، جو پیسے بچ جائیں، میں ان سے دیگر مستحق لوگوں کا علاج کرنا چاہتی ہوں۔ ویزہ نہ ملنے کے بعد ماریہ نے کراچی سے مجھے ٹیلی فون کیا کہ اسلام آباد میں ایک ڈاکٹر ہے جو (Stemcells) سے علیم کا علاج کر سکتے ہیں، آپ ان کا پتہ لگائیں۔ اگلی صبح میں ڈاکٹر صاحب کا معیار چیک کرنے کے لئے جب PMDC پہنچا تو مجھے وہاں پر بتایا گیا کہ ہاں اس ڈاکٹر کے پاس لائسنس ہے۔

علیم کی طبیعت ایسی نہیں تھی کہ وہ ہوائی جہاز میں سفر کر سکیں، اس لئے ماریہ اور ڈاکٹر کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا کہ اسلام آباد سے ڈاکٹر صاحب کراچی آئیں گے اور ہوائی جہاز، ہوٹل اور فیس ماریہ علیم ادا کریں گی، جس کے بعد علیم کا علاج شروع ہوا۔ مگر کچھ مہینوں بعد مجھے ماریہ علیم کی کال آئی کہ میں اسلام آباد میں ہو اور آپ ڈاکٹر صاحب کے کلینک پہنچ جائیں۔

میں جب ڈاکٹر کے کلینک پہنچا تو ماریہ دو دوستوں کے ہمراہ وہاں موجود تھیں۔ ماریہ علیم نے ڈاکٹر صاحب کے سامنے مجھے بتایا کہ انھوں نے میرے ساتھ 60 لاکھ روپے کا فراڈ کیا ہے۔ جب ڈاکٹر صاحب سے بات شروع ہوئی اور ہندوستان کے ایک ڈاکٹر، ڈاکٹر مانسو کو ماریہ نے کال پر لیا تو انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے جو Stem Cell  آپ کو مبلغ 8 ہزار ڈالرز میں بیچ دیے، ہیں ان کی قیمت دو ہزار ڈالرز سے بھی کم ہے۔ علیم جونجیو کی دو مہینے کی علاج کے لئے stem cells کی قیمت دو ہزار ڈالرز تھی مگر اسلام آباد کے ڈاکٹر صاحب نے وہی سیلز کی 8 ہزار ڈالرز میں کئی بار فروخت کی تھی۔

ڈاکٹر صاحب پر جب فراڈ عیاں ہوا تو وہ خاموش ہو گئے اور پھر کہا کہ میرے پاس اب رقم نہیں، جب آئے گی تو ادا کر دوں گا۔ ماریہ اور میں نے کئی بار کوشش کی کہ ڈاکٹر صاحب سے رقم واپس لی جائے مگر ڈاکٹر صاحب وعدوں پر وعدے کرتے رہے۔ اس دھوکے کے بعد کئی بار میں نے ماریہ سے رابطہ کیا مگر ان کا جواب ہر وقت یہی ہوتا تھا کہ اس فراڈ کے بعد میں ٹوٹ گئی ہوں اور اب مجھ میں ہمت نہیں۔

ہندوستان کے میڈیکل ویزہ نہ دینے اور ڈاکٹر کے فراڈ نے ماریہ کو توڑ دیا تھا اور انھوں نے جب ہر جانب مایوسیاں دیکھی تو علیم کو کراچی میں علاج پر ڈال دیا گیا۔ علیم کی طبیعت بگڑتی رہی اور بدھ کے روز علیم ماریہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور یوں پاکستان ہندوستان کی دشمنی نے ایک اور انسان کی جان لے لی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔