امن ایک ایسی نایاب چیز ہے جس کی طلب ہر انسان کو ہوتی ہے پر یہ اتنی آسانی سے ہاتھ نہیں آتی۔ امن کچھ محنت، جتن اور قربانیاں مانگتی ہے۔ اس دنیا میں بسنے والے ہر انسان نے ہمیشہ امن و امان کی تمنا کی ہے پر آج تک مکمل طور پر اسے حاصل نہیں کر پایا۔ جہاں پوری دنیا میں آج سب سے بڑا مسئلہ ہی امن کے حصول کا ہے وہیں ہمارا ملک پاکستان بھی امن و امان کا دلی خواہش مند یے۔
کیونکہ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک وہ امن کا گہوارہ بن جائے۔ ہمارے دشمنوں نے جب کبھی بات کی تو ہمیشہ جنگ و جدل کی ہی بات کی۔ ان کی ہر چھوٹی بڑی بات اور اختلاف اسی جنگ جیسی چیز پر آکر رکتا ہے۔ کبھی جنگ وجدل کی دھمکیاں دیتا ہے تو کبھی پورے غرور کے ساتھ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے معصوم جانوں کے خون سے کھیلتا ہے۔
ان کا یقین اس بات پر ہے کہ جب وہ خوف و ہراس پھیلا کر پاکستان کو ہر محاذ پر شکست دے سکتے ہیں تو پھر امن م کی جانب آئیں ہی کیوں ۔ پر اس کے برعکس پاکستان کا اس بات پر کامل یقین ہے کہ خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سب سے اہم چیز امن و آشتی ہے۔ لڑائی جھگڑوں، نفرتیں پھلانے اور جنگ وجدل جیسی چیزوں سے سوائے تباہی و بربادی کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اسی وجہ سے آج پوری دنیا اس بات کی چشم دید گواہ ہے کہ پاکستان کو جب، جہاں اور جیسے موقع ملا اس نے امن کا پیغام دینے میں پہل کی۔
کبھی جنگ و جدل میں پہل نہیں کی بلکہ ہمیشہ اس کا اختتام ضرور کیا۔ جب کبھی دشمن نے پاکستان کی پیٹھ پیچھے وار کرنا چاہا تو ہمارے ملک کے محافظوں نے اس کا مقابلہ بھی کیا پر ساتھ ہی امن کو فروغ دینے کی بھی بات کی۔ ابھی دو سال قبل 2019 کی ہی مثال لے لیں کہ کس طرح بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ابھی نندن وردھمان کا جہاز فضائی حملے کے دوران پاکستان کی حدود میں آکر گرا تو پاک فوج نے اس پائلٹ کی کس قدر مہمان نوازی کی۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ خدا نخواستہ اگر ایسا کچھ پاکستانی فضائیہ کے کسی پائلٹ کے ساتھ ہوتا تو بھارت اس کے ساتھ کیسا سلوک کرتا۔ جو کبوتروں اور غباروں تک کو نہیں بخشتا وہ اس معصوم کے ساتھ ناجانے کیا کیا کرتا۔ خیر تین دن تک ابھی نندن کی مہمان نوازی کرنے کے بعد اسے باعزت طریقے سے بھارت کے حوالے کر دیا گیا جہاں پہنچتے ہی ابھی نندن نے ناصرف چائے کی تعریف کی ساتھ ہی اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ پاکستان واقع ہی امن کا حقیقی خواہش مند ہے۔
بے شک یہ تمام مناظر پوری دنیا نے دیکھے اور پاکستان کے اس اقدام کو دنیا بھر میں سراہا بھی گیا۔ بات صرف یہی ختم نہیں ہوتی پاکستان نے تو امن کے لیے بھارت کی طرف ایک اور قدم بھی بڑھایا جس کی وجہ سے سکھوں کے لیے کرتار پور بارڈر کھول دیا گیا اور انھیں بغیر کسی ویزے اور پریشانی کے گرودوارہ میں آنے کی اجازت دے دی گئی۔ جس کے لیے سکھ یاتریوں نے برسوں انتظار کیا تھا۔
پاکستان کے اس اقدام سے سکھوں میں خوشی کی ایک نئ لہر دوڑی تو وہیں انھوں نے بھی اعتراف کیا کہ پاکستان درحقیقت خطے میں امن و سلامتی چاہتا یے۔ اس کے علاؤہ کشمیر کے مسئلے پر بھی بھارت کو پاکستان کی جانب سے بار بار یہ پیغام دیا جاتا رہا اور ابھی بھی دیا جارہا ہے کہ وہ آئیں اور مل بیٹھ کر اس مسئلے کے حل کی بات کریں۔ کیونکہ ہم خطے میں امن و امان چاہتے ہیں۔ پر افسوس بھارت اب بھی چپ سادھے ہوئے ہے اور کسی بھی حوالے سے امن کی بات کرنے سے گریزاں ہے۔