آڈیو لیکس کمیشن کیس: سابقہ پی ڈی ایم حکومت کے عدالتی بینچ پر اعتراضات مسترد

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ آڈیو لیکس منظر عام پر آنے کے بعد وفاقی حکومت اور اتحادی جماعتوں کی جانب سے عدالتی فیصلوں اور کارروائی پر دھمکیاں دی گئیں۔ کچھ ججز پر زبانی حملے بھی کیے گئے۔وفاقی حکومت کے فیصلوں پر عمل درآمد میں عدم تعاون پر تحمل کیا۔ عدالتی فیصلے نہ ماننے پر وفاقی حکومت کیخلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی۔

آڈیو لیکس کمیشن کیس: سابقہ پی ڈی ایم حکومت کے عدالتی بینچ پر اعتراضات مسترد

سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس کا جون میں محفوظ کیا گیا فیصلہ 3ماہ بعد سنا دیا۔ عدالت عظمیٰ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس میں پی ڈی ایم کی سابقہ حکومت کے عدالتی بینچ پر اعتراضات مسترد کردیے۔

پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے بینچ میں شامل تین ججز چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر اعتراضات کیے گئے تھے اور مفادات کے ٹکراؤ پر ان کی بینچ سے علیحدگی کے لیے متفرق درخواست دائر کی تھی۔

32 صفحات پر مشتمل تفصیلی  فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان نے تحریر کیا ۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن نے 6 جون کو محفوظ کیا گیا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اٹھائے گئے اعتراضات عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی خوش دامن، خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے، جسٹس مظاہر نقوی، عابد زبیری اور پرویز الٰہی کی مبینہ آڈیو لیکس پر حکومت نے ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا۔

حکومت نے 9 مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں یہ انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا جس میں اسلام آباد اور بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس شامل تھے تاہم عابد زبیری نے اس کمیشن کو چیلنج کیا تھا جس پر عدالت نے چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ تشکیل تھا، اس بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے۔

عدالتی بینچ نے اس کیس کی دو سماعتیں کیں اور آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کو کام کرنے سے روک دیا تھا۔

تاہم سابقہ حکومت نے مفادات کے ٹکراؤ پر تین ججزکی بینچ سےعلیحدگی کے لیے متفرق درخواست دائرکی تھی۔حکومت کی جانب سے بینچ میں شامل جن تین ججوں پر اعتراض اٹھایا گیا ان میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔

عدالت نے حکومت کی جانب سے بینچ پر اعتراض کی درخواست پر سماعت کے بعد 6 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جو تین ماہ بعد آج جمعہ کو جسٹس اعجاز الاحسن نے سناتے ہوئے تین ججز پر حکومتی اعتراض کی متفرق درخواست خارج کردی۔

تحریری فیصلے کے مطابق جس میں کہا گیا ہے کہ 3 ججز پر اٹھائے گئے اعتراضات کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں۔ بینچ پر اعتراض کی درخواست اچھی نیت کے بجائے بینچ کے رکن پر ہراساں کرنے کے لیے دائر کی گئی۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ وفاقی حکومت نے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے تاخیر کی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے مختلف چالوں اور حربوں سے عدالتی فیصلوں میں تاخیر کی اور عدالت کی بے توقیری کی گئی۔ عدالت کی بے توقیری کا سلسلہ یکم مارچ 2023 سے شروع کیا جب یہ کہا گیا چار تین کی اکثریت سے اسپیکر کی درخواست مسترد کی۔ وفاقی حکومت 4 اپریل کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل کے پیچھے چھپ گئی۔ اس کا مقصد اپنی بے عملی کو جواز دینا تھا۔ اس کے بعد پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ ریو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز قانون منظور کیا۔ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز قانون کو سپریم کورٹ غیر آئینی قرار دے چکی۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ وفاقی حکومت نے متعدد آئینی مقدمات سے ججز کو الگ کرنے کے لیے درخواستیں دائر کیں۔ آڈیو لیکس کمیشن میں بھی ایسی ہی مفادات کا ٹکراؤ اور تعصب جیسی بے سر و پا بنیادوں پر درخواست دائر کی۔ آڈیو لیکس کیس کیخلاف اعتراض کی درخواست دائر کرنے کا مقصد چیف جسٹس پاکستان کو بینچ سے الگ کرنا تھا۔ وفاقی وزرا نے مختلف مقدمات سننے والے ججز کے خلاف بیان بازی کی۔

عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ وفاقی وزرا نے صوبائی اسمبلیوں میں انتخابات کے خلاف کیس میں عوامی فورمز پر اشتعال انگیز بیانات دیے۔ وزرا کا اشتعال انگیز بیانات کا مقصد وفاقی حکومت کے ایجنڈے کو تقویت دینا تھا۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کے ان مقدمات کو انتہائی تحمل اور صبر سے برداشت کیا۔ کسی عدالتی فیصلے پر حتمی عدالتی فیصلے کی پابندی لازم ہے۔ فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے پر آئین میں نتائج دیے گئے ہیں۔ متفرق درخواست عدلیہ پر حملہ ہے۔ متفرق درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ بینچ کے ججز پر اعتراض کے لیے دائر کی گئی متفرق درخواست مذموم مقاصد کے لیے دائر کی گئی۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ وفاقی حکومت کے فیصلوں پر عمل درآمد میں عدم تعاون پر تحمل کیا۔ عدالتی فیصلے نہ ماننے پر وفاقی حکومت کیخلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی۔ آڈیو لیکس منظر عام پر آنے کے بعد وفاقی حکومت اور اتحادی جماعتوں کی جانب سے عدالتی فیصلوں اور کارروائی پر دھمکیاں دی گئیں۔ کچھ ججز پر زبانی حملے بھی کیے گئے۔ ججز پر حملے کی ایک مثال 15مئی کو سامنے آئی۔ جب عدالت الیکشن کمیشن کی 4 اپریل کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل پر سماعت کر رہی تھی۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ 4 اپریل کو سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔ 15مئی کو حکومت کی اتحادی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے باہر جارحانہ مظاہرہ کیا۔ جارحانہ مظاہرے میں چیف جسٹس پاکستان کو سنگین نوعیت کی دھمکیاں دی گئیں۔ چیف جسٹس پاکستان کو دھمکیاں دینے کا مقصد عدلیہ پر دباؤ ڈالنا تھا۔

عدالت نے تحریری فیصلے میں کہا کہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ریڈ زون علاقے میں احتجاج پر پابندی عائد تھی۔ وفاقی حکومت نے جلسے کے انعقاد کے لیے سہولت فراہم کی۔ حکومتی مشینری نے مظاہرین کو ریڈ زون میں داخل ہونے کے لیے سہولت فراہم کی۔ سپریم کورٹ کے باہر احتجاجی مظاہرے کا مقصد عدلیہ پر دباؤ ڈالنا تھا۔ وفاقی حکومت کی مدد سے پاور شو عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ تھا۔ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت عوام کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا حق معقول انداز سے استعمال ہونا چاہیے۔