پاکستان کے مخصوص حالات میں سیکولرازم ناگزیر کیوں؟

پاکستان کے مخصوص حالات میں سیکولرازم ناگزیر کیوں؟

از عبدالمجید عابد



قائد کا پاکستان کے دستور سے متعلق واضح پیغام


پاکستان کی قانون ساز اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا: آپ آزاد ہیں، آپ مندر، مسجد اور پاکستان میں کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کی آزادی رکھتے ہیں۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب اور فرقے سے ہو سکتا ہے اور اس معاملے میں ریاست آپ کے معاملات میں مداخلت کا حق نہیں رکھتی۔ جناح صاحب نے پاکستان کی تخلیق کے لئے دن رات ایک کی تھی اور نئی ریاست کے لئے ان کا منصوبہ اس تقریر میں موجود تھا۔ وہ اس امر سے باخبر تھے کہ اس وقت (اگست 1947) میں پاکستان کی آبادی کا پچیس فیصد حصہ غیر مسلموں پر مشتمل تھا۔ ستر سال گزر گئے، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا اور موجودہ اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان کی آبادی کا ستانوے فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس موقعے پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آیا ایک مسلم اکثریت ملک میں سیکولرازم کی جگہ موجود ہے یا نہیں۔



سیکولرازم کی خطے اور حالات کے مطابق تشریح


 سیکولرازم کو آغاز ہی سے پاکستان میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اسے لادینیت، فحاشی، غیر اخلاقی پن اور لاقانونیت قرار دیا جاتا رہا۔ سیکولرازم ایک سیاسی نظریہ ہے اور اس کا لادینیت سے کوئی تعلق نہیں۔ سیکولرازم کی اصطلاح نے یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے دوران  پاپائیت کے متضاد نظریے کے طور پر جنم لیا۔ یاد رہے کہ سیکولرازم ایک مخصوص نظریہ نہیں بلکہ مختلف ممالک میں اس کی تشریح مخلتف طرح کی گئی ہے۔ فرانس میں سیکولرازم Laïcité نامی نظریے کا شاخسانہ ہے جب کہ امریکہ، ہندوستان اور ترکی میں سیکولرازم دستوری طور پر نافذ ہے۔ Laïcité کے مطابق حکومتی معاملات میں مذہب کا عمل دخل نہیں ہو گا۔ امریکی دستور کے مطابق کانگرس کسی مذہب کی حمایت میں اور کسی مذہب کی مخالفت میں قانون سازی نہیں کر سکتی۔ ہندوستان کے قانون کے مطابق قانون سازی کے دوران مذاہب کے درمیان تفریق نہیں ہو گی۔ ترکی کے دستور کے مطابق شہریوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے لیکن مذہبی جماعتوں کو سیاسی جماعت بنانے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ ہمارے ہاں سیکولرازم کو لادینیت اور اسلام دشمنی سے جوڑنے میں مولوی عبدالحق اور مودودی صاحب کا کردار واضح رہا۔ ایک مسلم اکثریت ملک میں اس نوع کی لفظی ہیر پھیر نے سیکولرازم پر بحث کا دروازہ بند کر دیا۔



پاکستان میں سیکولرازم کو درپیش چیلنج


 پاکستان میں سیکولرازم کے داعیوں کے لئے ایک بڑا چیلنج یہ دکھانا ہے کہ اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر قائم کردہ ملک میں سیکولرازم کی ممکنہ شکل کیا ہو گی؟ میری ذاتی رائے میں پاکستانی سیکولرازم کا مطلب رواداری، بھائی چارہ اور ایک غیر متعصب ریاست ہے۔ ایک ایسی ریاست جو مسلمانوں، غیر مسلموں، شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی، احمدی، اور پارسی میں تفریق نہ کرے اور سب کی حفاظت کا ذمہ اٹھائے۔



پاکستان میں سیکولرازم کی ضرورت


فرقہ واریت اور مذہبیت کے معاملات میں ریاست کسی ایک فریق کی حمایت نہ کرے۔ جدید ٹیکنالوجی اور ترقی کے دور میں ہم فروعی اختلافات پر اپنے ہم مذہبوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ تعصب زدہ قانون سازی اور جانبدارانہ رویوں کے باعث پاکستان اس وقت اقلیتوں کے لئے ایک تپتی بھٹی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اقلیتوں کے تحفظ اور قانون کی علم برداری کے لئے ہمیں سیکولرازم کا راستہ اپنان پڑے گا۔