یہ تو حقیقت ہے کہ کورونا وائرس کی وبا انسانوں پر عذاب بن کر ٹوٹی ہے اور دنیا میں ہر طرف جان کے لالے پڑے ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ وبا دنیا کی حکومتوں اور حکمرانوں کے تخت و تاج کے پیچھے بھی ہاتھ دھو کر پڑی ہے۔ یہ وبا عوام کے لئے تو مشکلات کا باعث ہے ہی تاہم حکمرانوں کے لئے یہ وبا اور بھی بھاری ثابت ہوگی۔ جو حکومتیں اپنے عوام کو اس موذی وبا کے دوران اپنا سمجھتے ہوئے ان کی خدمت کریں گی، وہ سر خرو ہوں گی۔ البتہ جن حکومتوں نے اپنے عوام کے سر پر اپنی بہترین کارکردگی سے دست شفقت نہ رکھا، انہیں گھر جانا ہوگا۔
اسی حوالے سے پاکستان میں عمران خان کی حکومت اور اس کی کارکردگی بھی زیرِ بحث ہے۔ 2018 سے اب تک کی عمران خان حکومت کی پرفارمنس عوام کے سامنے ہے۔ تاہم، کورونا کی وبا کے بعد سے اس پر مزید سوالات اٹھ رہے ہیں۔ جب سے کورونا وائرس کے کیسز ملک میں بڑھنا شروع ہوئے ہیں، قوم اور اداروں نے مسلسل وزیر اعظم عمران خان کی طرف لیڈرشپ کے لئے دیکھا ہے اور ہر بار ہی انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
شاید قدرت ایسا موقع کسی کسی حکمران کو دیتی ہے جب اس کے مخالفین بھی اس کے ساتھ بغیر کسی شرط کے چلنے کو تیار ہوں۔ تاہم، ایسا بھی کوئی کوئی حکمران ہوتا ہے جو اس نادر موقع کو مجرمانہ طرز عمل کے ساتھ گنوا دے۔ کچھ ایسے ہی حکمران عمران خان ثابت ہو رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے حوالے سے مبہم فیصلہ سازی، اپوزیشن کے ساتھ عدم تعاون، ناقص حکمت عملی، وبا کو لے کر غلط بیانی کی حد تک لا پروا طرز عمل، اور مسلسل سیاسی مار دھاڑ سمیت وہ تمام سرگرمیاں جن کا کورونا سے لڑنے میں کوئی کردار نہیں ان کو جاری رکھنا، عمران خان کا بطور وزیر اعظم خاصہ رہا ہے۔ عالمی وبا سے جنگ کے دوران ملک کے وزیر اعظم کی واقعات سے لا علمی کا یہ عالم ہے کہ کورونا وائرس کے لئے شب برات پر دعا کی اپیل بھی وزیر اعظم نے شب برات گزرنے کے بعد کی۔
بین الاقوامی نشریاتی و اشاعتی ادارے الجزیرہ نے اسی حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ اب عمران خان کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں۔ جب سے یہ وبا شروع ہوئی ہے وزیر اعظم کی کمزور قوتِ فیصلہ کو لے کر اسٹیبلشمنٹ کو شدید تشویش ہے۔ الجزیرہ کے اس مضمون میں لکھا گیا ہے کہ افواج پاکستان نے صوبائی حکومتوں سے لاک ڈاؤن خود کروایا اور پھر ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس کا اعلان کر تے ہوئے پاک فوج کی سپورٹ کو صوبائی حکومتوں کے تقاضے کا نتیجہ قرار دیا اور ایسے میں وفاقی حکومت کا کہیں ذکر نہیں تھا۔
مضمون میں لکھا گیا ہے کہ عمران خان کی حکومت کی کوئی سمت نہ ہونے کا فائدہ مذہبی و دینی جماعتوں نے اٹھایا اور وہ ملک میں اس وائرس کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا مؤجب بنیں۔ اس مضمون کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات ناگوار گزری ہے کہ تفتان سمیت کہیں بھی وفاق کی جانب سے کچھ بھی مینج نہیں کیا گیا۔ یہ تو وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ تھے جنہوں نے کراچی میں کورونا کے پہلے کیس پر ہی سخت اقدامات لیتے ہوئے ٹیسٹنگ شروع کی جس کی وجہ سے وفاق اور دیگر صوبوں کے حکام جاگے۔
مضمون میں کورونا وائرس کے معاملے پر اس جلاس کا بھی ذکر ہے جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے صوبائی حکام سے براہ راست بریفنگ لی جب کہ جنرل باوجوہ کے یونیفارم اور ان کے چہرے کے تاثرات کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کسی بھی صورت موجودہ حکومت کا سیاسی بوجھ اٹھانے کو مزید تیار نہیں ہے۔ یہ بھی امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ کورونا کے جاتے جاتے اس حکومت کا بھی ساتھ جانا ممکن ہو سکتا ہے۔
اسی حوالے سے مضمون میں حکومتوں کی رخصت کی پیش گوئیوں کے لئے مشہور پاکستانی صحافی سہیل وڑائچ کے اس بیان کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت کے پاس اپنے معاملات درست کرنے کے لئے جون تک کا وقت ہے جس کے بعد مہلت نہیں رہے گی۔