جنوبی پنجاب کے سکھ گھرانے انتخابی عمل سے کیوں بیزار ہیں؟

حکیم بسنت سنگھ کے مطابق 2008 کے انتخابات سے اب تک انہیں یاد ہی نہیں کہ کسی انتخابی امیدوار نے ان سے براہ راست ووٹ مانگنے کے لیے غلطی سے بھی ان کا دروازہ کھٹکھٹایا ہو جیسے انہیں ہمارے ووٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ وہ ہمارے پاس اس لیے بھی نہیں آتے کہ کہیں انہیں کوئی ایسا مطالبہ نہ سننا پڑ جائے جو وہ پورا نہیں کر سکتے۔

جنوبی پنجاب کے سکھ گھرانے انتخابی عمل سے کیوں بیزار ہیں؟

ملتان دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی حدود سندھ تک پھیلی ہوئی تھیں اور اب یہ 4 اضلاع پر مشتمل ایک ڈویژن تک محدود ہو گیا ہے۔ ملتان پر قبضے کے لئے سکھوں اور مختلف مسلمان حکمرانوں کے درمیان بڑی بڑی جنگیں بھی ہوئیں اور سکھوں نے طویل عرصہ تک ملتان پر حکومت بھی کی۔ انگریز دور میں بھی ملتان پر حکومت کے لئے سکھوں اور انگریزوں کے درمیان جنگ رہی، تاہم انگریز حکومت اور سکھوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کے نتیجے میں ایک سکھ دیوان مول راج کو گورنر بھی مقرر کیا گیا۔ اس طرح ایک سکھ رنجیت سنگھ انگریز دور میں ملتان کے دیوان مقرر ہوئے اور ایک مثالی طرز حکمرانی کرتے ہوئے لوگوں کے دل جیت لیے۔ اس کی وجہ سے سکھوں کی ایک بہت بڑی آبادی قیام پاکستان سے قبل ملتان میں موجود رہی اور سکھ حکمرانی کے دور میں ملتان نے بہت ترقی بھی کی۔

پاکستان میں سکھوں کے مذہبی مقامات کی دیکھ بھال متروکہ وقف املاک بورڈ کرتا ہے تاہم پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی بھی قائم ہے جو مذہبی رسومات کے لیے پاکستان آنے والے سکھ یاتریوں کے انتظام و انصرام کی ذمہ دار ہے۔ سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے مطابق ملتان میں 8 گوردوارے موجود تھے جن میں سے اب ایک بھی موجود نہیں ہے اور ان کی جگہ گھر، دکانیں یا مارکیٹیں قائم ہونے کے بعد خیال نہ رکھنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان کی شناخت بھی مٹ چکی ہے۔ اس طرح 13 اضلاع پر مشتمل جنوبی پنجاب میں سکھوں کے لئے ایک بھی گوردوارہ موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے سکھ برادری اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے حوالے سے پریشانی کا شکار ہے اور انہیں جنوبی پنجاب کے دور دراز علاقوں سے دوسرے صوبوں یا اضلاع کا طویل ترین سفر کرنے کے ساتھ معاشی پریشانی بھی برداشت کرنا پڑتی ہے۔

 ملک بھر کی طرح جنوبی پنجاب میں بھی انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور ہر شہری انتخابی گہما گہمی کا کسی نہ کسی طرح حصہ نظر آتا ہے لیکن ملتان کے رہائشی حکیم بسنت سنگھ اس تمام تر انتخابی عمل کی رونق سے دور صرف اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ حکیم بسنت سنگھ صبح سویرے اٹھ کر اپنے گھریلو امور سرانجام دینے کے بعد ملتان سے 35 کلومیٹر دور مظفر گڑھ شہر میں اپنی حکمت کی دکان کھولتے ہیں اور شام تلک مریضوں کو دیکھنے کے بعد واپس ملتان آتے ہیں۔ انتخابی گہما گہمی نے اس کی مصروفیت میں رتی برابر بھی فرق نہیں ڈالا اور نا ہی انہوں نے انتخابی عمل میں کسی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

حکیم بسنت سنگھ کا کہنا ہے جنوبی پنجاب اور ملتان جو کبھی سکھوں کا گڑھ ہوا کرتے تھے، اب سکھ برادری سے خالی ہو گئے ہیں اور باقی رہ جانے والوں میں سے نوجوان عملی زندگی میں آ کر ان علاقوں کو چھوڑ کر بڑے شہروں یا پشاور کا رخ کرتے ہیں اور وہاں پر کاروبار جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بسنت سنگھ نے مایوسی سے بھری گہری سانس لیتے ہوئے بتایا کہ اس کی بنیادی وجہ صرف سیاسی عمل میں شمولیت کا موقع نہ دیا جانا ہے۔ اب تو یہ صورت حال ہے کہ 2008 کے قومی انتخابات سے اب تک انہیں یاد ہی نہیں ہے کہ کسی انتخابی امیدوار نے ان سے براہ راست ووٹ مانگنے کے لیے غلطی سے بھی ان کا دروازہ کھٹکھٹایا ہو کیونکہ منتخب نمائندوں کو ان کے ووٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ وہ ہمارے پاس اس وجہ سے نہیں آتے کہ کہیں انہیں کوئی ایسا مطالبہ نہ سننا پڑ جائے جو وہ پورا نہیں کر سکتے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

بسنت سنگھ نے بتایا کہ انتخابی عمل میں شمولیت نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ یہ سلوک ہوا ہے کہ ملتان اور پنجاب جس پر سکھوں نے حکومت کی، وہاں اب سکھ برادری کے گورداروں کے نام و نشان تک مٹ چکے ہیں اور ان کے مردوں کی تدفین کے لئے بھی کوئی انتظام موجود نہیں۔ انہیں اپنی مذہبی عبادات، رسومات اور دیگر خوشی و غمی کے معاملات کے لئے حسن ابدال، ننکانہ صاحب اور پشاورکا رخ کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے ایک جانب تو انہیں کثیر سرمایے کی ضرورت پڑتی ہے تو وہیں اپنے کام کاج اور کاروبار سے کئی روز کی چھٹی بھی کرنی پڑتی ہے۔ اس لیے ملک میں انتخابی عمل کے ہونے یا نہ ہونے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ملتان سے مخصوص نشست پر منتخب سابق ممبر صوبائی اسمبلی مہندر پال سنگھ کے مطابق سال 2000 سے قبل انتخابی قوانین کے مطابق اقلیتی نشستوں پر امیدوار بننے کا موقع تو موجود تھا لیکن باقی اقلیتوں کے مقابلے میں تعداد کم ہونے کی وجہ سے سکھ برادری سے کوئی منتخب نہیں ہو سکا۔ بعدازاں نئے انتخابی قوانین کے مطابق اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں پر ممبران منتخب کرنے کا حق سیاسی جماعتوں کو دے دیا گیا تو جنوبی پنجاب اور ملتان کو کسی سیاسی جماعت نے اس قابل ہی نہیں سمجھا۔ تاہم وہ اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب کیے گئے اور پاکستان کی تاریخ میں جنوبی پنجاب سے پہلے سکھ ممبر اسمبلی تھے۔ تاہم چاہنے کے باوجود کئی مشکلات کے باعث وہ ملتان اور جنوبی پنجاب میں اپنی برادری کے لئے مذہبی عبادت گاہوں کو بحال نہیں کرا سکے کیونکہ ان کی ہئیت ہی اتنی زیادہ تبدیل کر دی گئی ہے کہ اس میں بہت سی قانونی پیچدگیاں اور موشگافیاں پیدا ہو چکی ہیں۔ اس وجہ سے سکھ برادری یہاں سے دوسرے علاقوں میں منتقل ہو رہی ہے اور ان کے پاس اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار نہ ہونے کی وجہ سے وہ انتخابی عمل میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے۔

ادارہ شماریات پاکستان کی 2017 میں کی گئی مردم شماری کے مطابق سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی پاکستان میں موجودہ تعداد 2 لاکھ ہے، جن میں سے زیادہ تر پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں آباد ہیں۔ جنوبی پنجاب کے شہر ملتان میں اس وقت صرف 6 سکھ گھرانے آباد ہیں جن کے 21 ووٹ درج ہیں۔ اسی طرح ضلع بہاولپور میں 12 سکھ گھرانوں کے 38، ضلع مظفرگڑھ میں 5 گھرانوں کے 11 اور ضلع ڈی جی خان میں 10 سکھ گھرانوں کے 23 ووٹ رجسٹرڈ ہیں جبکہ جنوبی پنجاب کے باقی 9 اضلاع میں صرف 20 سکھ گھرانے موجود ہیں جن کے 53 ووٹ درج ہیں۔ تاہم ان گھرانوں کے بھی بیش تر نوجوانوں نے اپنے ووٹ کا اندراج حسن ابدال اور ننکانہ صاحب میں کرا رکھا ہے۔ ملتان اور جنوبی پنجاب میں آباد سکھ برادری کے افراد زیادہ تر کپڑے، کاسمیٹکس اور حکمت کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔

سکھ برادری کے مطابق ان کی خواتین ووٹ ڈالنے نہیں جاتیں جبکہ مرد بھی اپنے ووٹ زیادہ تر ملتان اور جنوبی پنجاب میں درج نہ ہونے کی وجہ سے انتخابی عمل کے روز زیادہ تر اپنے کام کاج میں ہی مصروف رہتے ہیں۔

تارا سنگھ  کی عمر70 سال ہے۔ انہوں نے بتایا قیام پاکستان سے قبل ملتان اور جنوبی پنجاب میں سکھ برادری بہت بڑی تعداد میں موجود تھی اور اندرون شہر کے کئی علاقوں میں صرف سکھ ہی قیام پذیر تھے۔ ان میں سے بیش تر قیام پاکستان کے وقت ہجرت کر گئے لیکن وہ اپنے خاندان سمیت یہیں رہ گئے اور اپنے وطن کو نہیں چھوڑا۔ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک انہوں نے کبھی انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا کیونکہ اس خطے میں ان کی برادری کا کوئی فرد امیدوار کے طور پر موجود ہی نہیں ہوتا اور یہ بات ان کے لئے بڑے دکھ کا باعث رہی ہے۔ بعد میں سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں تو ان کے ووٹ کا بھی حق لے لیا گیا کیونکہ گنے چنے ہونے کی وجہ سے کبھی ان کے ووٹ کی کسی امیدوار نے خواہش ہی نہیں کی۔

بہاولپور کی 57 سالہ رہائشی آوانی کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر نوجوت سنگھ تمباکو کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ اپنے مذہبی معاملات اور رشتہ داری کی وجہ سے وہ پشاور کا رخ کرتے ہیں اور ان کے ووٹ بھی پشاور میں درج ہیں۔ تاہم وہ کبھی بھی ووٹ ڈالنے نہیں گئیں کیونکہ انہیں اپنے شوہر کی جانب سے اجازت نہیں ہے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے آوانی کا کہنا تھا کہ ان کے کئی رشتہ دار گذشتہ کچھ برسوں میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جس کی وجہ سے وہ زیادہ گھلنا ملنا پسند نہیں کرتے۔ دوسری وجہ ان کے شوہر کا یہ ماننا ہے کہ ان کی روزی روٹی زیادہ اہم ہے، اس لئے انتخابی عمل میں وہ کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے خاندان میں کبھی ووٹ ڈالنے کی بات تک نہیں کی گئی۔

سابق ممبر قومی اسمبلی اور اندرون شہر ملتان سے صوبائی اسمبلی کے موجودہ امیدوار شیخ طارق رشید کا کہنا ہے کہ یہاں رہنے والی تمام اقلیتیں پاکستان کی شہری ہیں اور انہیں دیگر تمام حقوق کی طرح ووٹ دینے کا بھی حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی انتخابی مہم میں وہ تمام طبقات کو شامل کرتے ہیں تاہم تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے غیر مسلم افراد کی موجودگی اس طرح محسوس نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ اپنے منشور میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم افراد کے حقوق کی پاسداری اور ان کے مسائل کے حل پر یقین رکھتے ہیں اور ان مسائل کا ادارک ہونے کی وجہ سے حل کرنے کی بھی پوری کوشش کریں گے۔ سکھ برادری کے ووٹ بھی ان کے لئے پوری طرح مقدم ہیں اور کامیابی کے بعد سکھ برادری کے مسائل کو حل کرنے کے لئے بھرپور اقدامات عمل میں لائیں گے۔