بلوچستان؛ خواجہ سرا کمیونٹی انتخابی عمل سے کیوں لاتعلق ہے؟

آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے میں کوئی برائی نہیں لیکن ہم توقع کر رہے تھے کہ سیاسی پارٹیاں خواجہ سراؤں کو ٹکٹ دے کر پارٹیوں میں نمائندگی دیں گی لیکن ہمارا سیاسی نظام اب بھی بہت کمزور ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسی پارٹی کی طرف سے بھی خواجہ سراؤں کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔

بلوچستان؛ خواجہ سرا کمیونٹی انتخابی عمل سے کیوں لاتعلق ہے؟

الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ووٹرز کی مجموعی تعداد 12 کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار 760 ہے جس میں سے مردانہ ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 92 لاکھ 63 ہزار 704، یعنی 53.87 فیصد اور خواتین ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 93 لاکھ 22 ہزار 56، یعنی 46.13 فیصد ہے۔ الیکشن کمیشن کے ڈیٹا کے مطابق بلوچستان میں ووٹرز کی تعداد 53 لاکھ 71 ہزار 947 ہے، جس میں 30 لاکھ 16 ہزار 164 مرد ووٹرز جبکہ 23 لاکھ 55 ہزار 783 خواتین ووٹرز ہیں۔

ٹرانس جینڈرز کے حوالے سے البتہ کوئی نیا ڈیٹا دستیاب نہیں۔ اگرچہ انہیں انتخابی امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔ 2017 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں کل 780 خواجہ سرا تھے جن میں سے 489 دیہی علاقوں میں اور 291 شہری علاقوں میں رہتے تھے۔ 2023 کی مردم شماری کے نتائج میں خواجہ سراؤں کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں۔

پاکستانی معاشرے میں روایتی طور پر خواجہ سراؤں کی زندگیوں کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ انہیں علاقوں میں مقامی طور پر جانا جاتا ہے۔ خواجہ سراؤں کو ہمارے معاشرے میں کم ہی احترام دیا جاتا ہے۔ انہیں زیادہ تر شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرانس جینڈرز کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے۔

ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ایف ڈی آئی عظمیٰ یعقوب کا کہنا تھا کہ ایف ڈی آئی ایک این جی او ہے جو خواتین، خواجہ سراؤں اور سپیشل افراد کے حقوق کیلئے کام کرتی ہے۔ پاکستان کی جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں وہ خواجہ سرا اور معذور افراد کو موبلائز کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوئی ہیں۔ 2018 کے الیکشن میں ٹوٹل 5 خواجہ سراؤں نے پاکستان کے مختلف حلقوں سے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا تھا۔ مانسہرہ سے ایک خواجہ سرا نے 511 ووٹ لیے تھے لیکن وہ آزاد امیدوار تھے۔ 2024 کے جنرل الیکشن میں ہماری توقع یہ تھی کہ کسی نا کسی پارٹی کی طرف سے خواجہ سراؤں کو بھی ٹکٹ دیا جائے گا یا انہیں اپنے سیاسی ونگ میں شامل کیا جائے گا۔

عظمیٰ یعقوب کے مطابق 2024 کے جنرل الیکشن میں ملک سے 4 خواجہ سرا بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں جن میں سے تین خیبر پختونخوا اور ایک اسلام آباد سے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے میں کوئی برائی نہیں لیکن ہم توقع کر رہے تھے کہ سیاسی پارٹیاں خواجہ سراؤں کو ٹکٹ دے کر پارٹیوں میں نمائندگی دیں گی لیکن ہمارا سیاسی نظام اب بھی بہت کمزور ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسی پارٹی کی طرف سے بھی خواجہ سراؤں کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ ہم اس سیاسی نظام سے بہت مایوس ہیں کیونکہ الیکشن میں کچھ دن ہی رہ گئے ہیں لیکن الیکشن کمیشن یا کسی ادارے کے پاس خواجہ سراؤں سے متعلق درست اعداد و شمار بھی موجود نہیں ہیں۔

عظمیٰ یعقوب کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان کے حوالے سے ہمیں خاص طور پر تحفظات ہیں کیونکہ جو پورا نظام ہے اس سے بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہے لیکن اس میں جو پالیسیز بنی یا بن رہی ہیں کیا خواتین، خواجہ سرا، خصوصی افراد یا پھر اقلیتیں اس پالیسی سازی کا حصہ ہیں؟ اور کیا صوبہ کی سطح پر ایسی پالیسیز بنائی جا رہی ہیں جن کی بدولت خواجہ سراؤں کے تحفظات دور کیے جائیں؟

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے خواجہ سرا نیشا نے بتایا کہ کوئٹہ شہر اور بلوچستان میں خواجہ سراؤں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ ہیں جنہوں نے اپنے والد کے نام کے ساتھ اپنا شناختی کارڈ بنوایا اور خود کو مرد یا عورت بتایا۔ جبکہ دوسرے وہ ہیں جنہوں نے جنس x کے ساتھ اپنا شناختی کارڈ بنوایا ہے۔

ٹرانس جینڈر نیشا نے بتایا کہ میں نے عام انتخابات میں اپنا ووٹ تین سے چار مرتبہ ڈالا اور وقت کے ساتھ کچھ نہیں بدلا۔ ہم خواجہ سراؤں کو ہمیشہ پولنگ سٹیشنوں پر مرد ووٹرز کی طرف سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ گارڈز، پولیس اور دیگر انتظامیہ کے لوگ بھی ہراساں کرنے والوں کو روکنے کے بجائے ہمارے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہماری حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ ہر این جی او صرف دکھاوا کرتی ہے لیکن ہماری ترقی اور حقوق کے لیے کبھی کوئی کام نہیں کرتی۔

ابراہیم نامی مرد خواجہ سرا کا کہنا تھا کہ میں کوئٹہ شہر کے علاقے بروری روڈ کا رہائشی ہوں۔ میں نے عام انتخابات میں دو بار ووٹ کاسٹ کیا۔ میں نے ٹرانس جینڈرز کے مسائل کے حوالے سے مختلف تربیتی ورکشاپس میں حصہ لیا۔ بلوچستان ایک قبائلی صوبہ ہے۔ ہم نے X جنس کے ساتھ شناختی کارڈ بنانے کے مسئلے کو ہمیشہ اجاگر کیا۔ ہماری برادی میں سے بیش تر کا کہنا تھا ہم x جنس کے ساتھ شناختی کارڈ نہیں بنوا سکتے کیونکہ قبائلی خاندانوں کے ہاتھوں مارے جانے کا خدشہ ہوتا ہے اور وہ کبھی بھی اپنی شناخت دوسروں کے سامنے ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم میں سے اکثر تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور وہ صرف اپنی بقا کے لیے پیسے کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اہمیت نہیں جانتے کیونکہ ہمارے زیادہ تر خواجہ سرا شادیوں یا خوشی کے مواقع پر اپنی پرفارمنس سے پیسے کماتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی حمایت کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی ہی ہمیں کچھ جگہ دیتی ہے، ورنہ سیاسی جماعتیں کبھی ہمارے مسائل حل کرنے کی کوشش نہیں کرتیں۔

رانی نامی خواجہ سرا نے بتایا کہ میں نے کبھی بھی عام انتخابات میں اپنا ووٹ نہیں کاسٹ کیا اور نا ہی میں کبھی ووٹ ڈالنا چاہتی ہوں کیونکہ ہمیں وہاں ہراساں کیا جاتا ہے۔ کوئٹہ یا بلوچستان میں خواجہ سراؤں کی اصل تعداد کسی کو معلوم نہیں۔ خواجہ سراؤں کیلئے الیکشن کمیشن یا انتظامیہ کو الگ پولنگ سٹیشن بنانے ہوں گے جو ان کے لیے آسانی سے قابل رسائی ہوں۔ مقامی این جی اوز اور الیکشن کمیشن صرف مخصوص خواجہ سراؤں کو تربیت دیتے ہیں۔ لیکن ان میں سے اکثر خواجہ سرا حیاتیاتی اصطلاحات سے واقف نہیں ہیں۔ رانی کا کہنا تھا کہ ہم انہیں مشورہ دیتے ہیں، وہ ہماری کمیونٹی سے کسی ایسے شخص کی خدمات حاصل کریں جو پولنگ ایجنٹس اور دیگر اراکین کو ہمارے بارے میں آگاہ کرے اور اس کے مطابق ہمیں سہولت فراہم کرے۔

کمشنر کوئٹہ محمد حمزہ شفقت کے مطابق بلوچستان میں خواجہ سراؤں کی کل آبادی ایک ہزار سے کم ہے۔ خواجہ سرا اپنی آبادی کے حساب سے ایک یا دو پولنگ سٹیشنوں پر ووٹ ڈالتے ہیں۔ آئندہ انتخابات کے حوالے سے انتظامیہ نے بھرپور اقدامات کیے ہیں اور خواجہ سراؤں اور معذور افراد کی مدد کے لیے ہر پولنگ سٹیشن پر مددگاروں کی خدمات حاصل کی ہیں۔ ہراسانی کے سوال پر کمشنر نے کہا کہ یہ آپ کے رویے اور انسانیت پر منحصر ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کو اس کی جنس کی وجہ سے ہراساں کرتا ہے یا اسے مارتا ہے تو یہ اس کی تعلیم اور اس کی پرورش کو ظاہر کرتا ہے۔

خواجہ سرا اپنا شناختی کارڈ کیوں نہیں بنواتے، اس سوال کے جواب میں حمزہ شفقت نے بتایا کہ نادرا کے سٹیزن ایکٹ کے مطابق آپ کو اپنا شناختی کارڈ بنوانا پڑتا ہے، اس کے بعد ہی آپ کو پاکستانی شہری تصور کیا جاتا ہے۔ اپنا شناختی کارڈ بنوانے کے بعد آپ اپنی پسند کے ہر حق، ووٹ دینے کا حق اور بطور ٹرانس جینڈر انتخابات میں حصہ لینے کے حق کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔

سابق وزیر مملکت اور وزیر اعظم کی معاون خصوصی روبینہ عرفان نے کہا کہ میں پاکستان میں خواجہ سراؤں کے حقوق کی پُرجوش وکالت کرتی ہوں۔ اگر کوئی پیدائشی طور پر ٹرانس جینڈر ہے تو ہمیں اسے قبول کرنا ہو گا اور اپنے معاشرے سے ٹرانس جینڈرز کے خلاف بدنامی کو دور کرنا ہو گا۔ بطور سیاست دان ہمیں اپنے پیروکاروں اور ووٹروں کی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ کسی کو جنس کی وجہ سے ہراساں نہ کریں کیونکہ یہ فطری معاملہ ہے۔

صوبائی اسمبلی میں خواجہ سراؤں کے کوٹے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں شامل کرنا اور انہیں ہماری صوبائی اسمبلی کا حصہ بنانا بہت ضروری ہے۔ وہ کبھی بھی اپنا نکتہ نظر بیان نہیں کرتے۔ بلوچستان کے دیگر سیاست دانوں نے کبھی اس موضوع میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا کومل نے مطالبہ کیا کہ خواجہ سراؤں کی صحت کیلئے جامع پالیسی بنائی جائے۔ سیاسی پارٹیاں اپنے منشور میں خواجہ سرا کے حقوق کو بھی شامل کریں۔ خواجہ سراؤں کو ووٹ کی اہمیت بارے آگاہی دینا بھی بہت ضروری ہے۔ انہیں بھی پورا اختیار ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا صحیح طریقے سے استعمال کریں۔

کومل کا کہنا تھا کہ آج ہمارے خواجہ سرا ڈاکٹر بھی ہیں، پی ایچ ڈی بھی ہیں اور استاد بھی ہیں مگر کیا انہیں ان کے پیشے کے مطابق اجرت اور عزت ملتی ہے؟ نہیں! آج بھی ان کے ساتھ معاشرے میں زیادتی کی جاتی ہے۔ ان سے ان کا حق چھینا جاتا ہے۔ کیا ہر محکمے میں خواجہ سراؤں کے لیے بھی مخصوص سیٹ ہوتی ہے؟ آج بھی خواجہ سرا پبلک ٹرانسپورٹ عام لوگوں کی طرح استعمال نہیں کر سکتے لیکن یہاں بلوچستان میں کوئی پالیسی نہیں؛ تعلیم کے حوالے سے اور نا ہی صحت کے حوالے سے۔ ہمارے ہاں صرف عورتوں کو ہراساں نہیں کیا جاتا بلکہ خواجہ سراؤں کو سب سے زیادہ ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے بہت سارے ساتھیوں کو قتل بھی کیا گیا ہے۔

فیروز خان خلجی صحافی ہیں اور ان کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے۔ وہ جیو نیوز کے کوئٹہ بیورو سے منسلک ہیں۔