Get Alerts

سندھ کی خواجہ سرا کمیونٹی کو عام انتخابات پر شدید تحفظات ہیں

خواجہ سرا کمیونٹی اس سال الیکشن میں باہر نہیں آ سکے گی کیونکہ ان کا  شناختی کارڈ بنا ہے اور نہ ہی ان کے ووٹ کا اندراج ہوا ہے۔ اس سب کی ذمہ دار حکومت پاکستان ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کی جانب سے عام انتخابات میں ہمیں ٹکٹ دینا تو دور کی بات ہے، وہ ہمارا نام بھی سننا پسند نہیں کرتے۔

سندھ کی خواجہ سرا کمیونٹی کو عام انتخابات پر شدید تحفظات ہیں

'ہم 2018 کے الیکشن میں جب پہلی بار پولنگ بوتھ پر گئے تو وہاں پر ہمارا مذاق اڑایا گیا۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کی جانب سے عجیب و غریب ناموں سے پکارا گیا، آوازیں کسی گئیں، سیٹیاں بجائی گئیں، تمسخر اڑایا جاتا رہا۔ مردوں کی لائن سے ہٹ کر اگر خواتین کی لائن میں کھڑے ہوئے تو خواتین کو اعتراضات ہوتے ہیں کہ یہ یہاں کیوں کھڑے ہیں'۔ یہ کہنا ہے شہزادی رائے کا جو ٹرانس جینڈر ایکٹیوسٹ ہیں اور کراچی میونسپل کونسل کی پہلی منتخب ممبر ہیں۔

شہزادی رائے کہتی ہیں کہ الیکشن سے ہمیں دور رکھا گیا ہے۔ شریعہ کورٹ کے فیصلے کے بعد نادرا نے ہمارے شناختی کارڈ نہیں بنا کر دیے۔ سافٹ ویئر سے وہ آپشن ہی ختم کر دیا گیا حالانکہ ہم نے شریعت کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کر رکھا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ٹرانس جینڈر ایکٹ کالعدم قرار دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ 17 جولائی 2023 یہ فیصلہ چیلنج کیا گیا ہے۔ خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی اور سول سوسائٹی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ خواجہ سراؤں کی تعداد کو کم گنا جاتا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق ہمیں 25 سو کے قریب گنا گیا ہے جبکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہماری تعداد سندھ میں 50 ہزار کے قریب ہے۔

حکومت سندھ کے محکمہ صحت نے پاکستان میں اقوام متحدہ کے اشتراک سے کراچی میں پری ایکسپوزر پروفیلیکسس پروگرام (PrEP) کا آغاز 7 جون 2022 کو کیا تھا جس میں خواجہ سراؤں کی تعداد 50 ہزار کے قریب بتائی گئی۔ اس میں ہم نے 16 ہزار کے قریب لوگوں کے ایچ آئی وی کے ٹیسٹ کروا چکے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت ہم نے 8 سو کے قریب ایچ آئی وی پازیٹو کو رپورٹ کیا ہے۔ ہم 22 سو کیسے ہو سکتے ہیں؟

خواجہ سرا کمیونٹی اس سال الیکشن میں باہر نہیں آ سکے گی کیونکہ ان کا  شناختی کارڈ بنا ہے اور نہ ہی ان کے ووٹ کا اندراج ہوا ہے۔ اس سب کی ذمہ دار حکومت پاکستان ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کی جانب سے عام انتخابات میں ہمیں ٹکٹ دینا تو دور کی بات ہے، وہ ہمارا نام بھی سننا پسند نہیں کرتے۔

دیکھیں 2018 کا جو جنرل الیکشن تھا ایک ادارے کی طرف سے ایک انسپشن کے طور پر پولنگ اسٹیشن پر کام کیا۔ میں آپ سے وہ تجربہ شیئر کرتی ہوں۔

خواجہ سرا کو جگہ دینا، ووٹنگ کے لیے الگ بوتھ ہونا اس قسم کی کوئی چیز کا انتظام ہرگز نہیں کیا گیا تھا پولنگ اسٹیشن پر۔ کوئی تیسری لائن موجود نہیں تھی۔ کوئی اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ بہت مذاق اڑایا جا رہا تھا کہ آپ کس لائن میں کھڑی ہیں۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے سختی سے کہہ دیا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ کیوں بات کر رہی ہیں۔ آپ کیوں آئی ہیں یہاں پر اور آپ کا کیا کام ہے۔ ہم ریاستی طور پر فیل ہوئے ہیں اس الیکشن میں کوئی بھی اصلاحات نہیں لے کر آئے ہیں۔ پولیس کی طرف سے بھی کوئی بہتر ایکشن نہیں لیے گئے۔ ان پانچ سالوں میں کچھ کام نہیں کیا گیا۔ کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔

ان کا مزید کہنا تھا ہمارے تحفظات ہیں، ہمیں سکیورٹی فراہم کی جائے۔ یہاں ذہنی طور پر ٹرانس کو کوئی قبول نہیں کرتا کہ ٹرانس آپ کے مدمقابل کھڑا ہے اور وہ الیکشن لڑ رہا ہے۔ جب تک ہم آپ کے سامنے بھیک مانگیں، آپ کے سامنے ہاتھ پھیلائیں، اس پوزیشن پر آئیں کہ آپ ہم پر ترس کھائیں اگر ہم برابری کی بات کرتے ہیں اگر آپ کا پاور اور پوزیشن والا وہی مائنڈ سیٹ ہے تو ہمیں آپ کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔

ٹرانس جینڈر آپ کے برابر آپ کے ساتھ اپنا ووٹ دے۔ ویسے بھی پاکستان کی سیاست میں جب اپوزیشن لیڈر اور جماعت کو بہت ہی نامناسب الفاظ سے پکارا جاتا ہے ہمیں بھی اسی قسم کے رویوں کا سامنا ہے۔ یہ خسرے، ہیجڑے، چھکے ہیں۔ تالی مار کر مذاق اڑانا لوگوں کو یہ بتانا کہ ٹرانس جینڈر کمزور ہے۔ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو ہمیشہ گالی دے کر ایک کمزور انسان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

جب آپ اس طرح کا رویہ رکھیں گے تو کون آئے گا سامنے۔ سندھ شروع سے ہی ترقی پسند سوچ کا حامل رہا ہے۔ خواجہ سرا کمیونٹی خاص طور پر حکومت کی سطح پر لیکن ابھی تک جب لوکل گورنمنٹ کے الیکشن ہو رہے تھے اس میں بھی کچھ چھوٹے ایسے علاقے تھے جن کی سیاسی جماعتوں کے جو ممبر کھڑے ہوئے تھے انہوں نے صاف انکار کیا تھا کہ ٹرانس ممبر ہماری کونسل میں نہیں ہوں گے۔

کافی اعتراض ہوا تھا اور یہ کیس سانگھڑ کا تھا۔ اس کیس کو ہم نے سوشل میڈیا پر اٹھایا تھا۔ سیاسی جماعتوں سے بھی بات کی تھی۔ ابھی تک یہ مسائل حل نہیں ہو سکے ہیں۔ جب الیکشن ہونے والے ہوتے ہیں تو ہر کسی کو اپنی پڑی ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح سے بھی جیت جائے۔

خود کو عوامی نمائندہ کہنے والے کبھی ٹرانس جینڈر سے نہیں ملے اور اس پر کچھ سیاست دان فخر بھی کرتی ہیں۔ آپ پبلک ایشوز سے آشنا ہی نہیں ہیں۔

مذہبی جماعتیں، سیاسی جماعتیں، میڈیا کے لوگ کوئی بھی ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ ہمارے پاس گنے چنے الائنس موجود ہیں۔ مین سٹریم میڈیا پر بیٹھیں گے آپ نے یہ بات نہیں کرنی۔ آپ نے اپنے جینڈر کے بارے میں بات نہیں کرنی۔ اس کے بعد کسی مفتی، مولوی یا ایسے فرد کو بٹھا دیتے ہیں ان کے سامنے بات کریں ہمیں اصل میں انسانی حقوق چاہئیے اور کچھ نہیں ہے۔

میڈیا کا کردار اور شعور اجاگر کرنے کی ضرورت

انتخابات میں شہزادی رائے کا خیال ہے کہ میڈیا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ جو ہم نے تیاریاں کرنی تھیں پچھلے پانچ سالوں میں وہ ہم نے نہیں کی۔ ریاست کی طرف سے اور دیگر اداروں کی طرف سے۔ میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے خاص طور پر سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کچھ ایسے اشتہارات میڈیا کمپین نگران حکومت کی طرف سے اور سیاسی پارٹیوں کی طرف سے چلائی جائیں اور اس میں طریقہ کار بتایا جائے ٹرانس جینڈر کے رائٹس ہیں۔ اگر یہ پولنگ اسٹیشن پر آتے ہیں تو ان کو عزت دی جائے۔ پولنگ اسٹیشن پر مذاق یا تماشہ بننے سے لوگ ڈرتے ہیں۔ انہیں عزت دے کر ان کو تمام حقوق فراہم کئے جائیں۔ ان کو لائن میں مت کھڑا کریں، ان کو عزت دیں، حق رائے دہی استعمال کرنے میں مدد دیں۔ آگاہی کے پروگرام کا انعقاد کرنا بے حد ضروری ہے۔

شناختی کارڈ کا مسئلہ

زرش کراچی میں میونسپل کارپوریشن صفورا کونسل سے ہے۔ بتاتی ہیں کہ شریعہ کورٹ کے فیصلے کے بعد ہمارے شناختی کارڈ فریز کر دیے گئے تھے۔ نہ نئے بن پا رہے ہیں اور نہ ہی انہیں ری نیو کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شریعہ کورٹ کے فیصلے کے بعد نادرا کو لیٹر ملا تھا جس کے بعد ہمارے شناختی کارڈ ہی جب نہیں بنیں گے تو ہم بھلا الیکشن کا حصہ کیسے بن سکتے ہیں۔ ایک سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ ہے۔ اگر شناختی کارڈ بنوانے جاتے ہیں تو یہ بھی کہا جاتا ہے اپنا میڈیکل سرٹیفکیٹ لے کر آئیں۔ کیا اس معاشرے میں لڑکا لڑکی اپنا میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع کراتے ہیں؟ نہیں نہ، پھر ہمارے ساتھ ایسا رویہ کیوں رکھا جا رہا ہے؟

ووٹر رجسٹریشن

ووٹر رجسٹریشن کا عمل تب ہوتا جب ہمارے شناختی کارڈ بنے ہوتے۔ ان کی آخری تاریخ 21 جولائی تھی جو کہ گزر گئی ہے۔ اور ہمارے نہ شناختی کارڈ بنے اور نہ ہی ووٹر رجسٹریشن کا عمل مکمل کیا جا سکا۔ سب کچھ نادرا نے روکا ہوا ہے۔

کراچی میں آبادی

زرش کے مطابق کراچی میں ان کی آبادی 22 ہزار کے قریب ہے جس میں 63 فی صد تعداد سندھ کے دیگر اضلاع اور پنجاب سے آنے والے خواجہ سراؤں کی ہے۔

الیکشن میں جب سے بات چلی ہے کہ ہم حصہ لیں گے تو مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہمارے اوپر عجیب و غریب قسم کے جملے کسے جاتے ہیں۔ غلط ناموں سے ہمیں پکارا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اب تم لوگ ہماری برابری، ہمارا مقابلہ کرو گے۔

ہم خواجہ سرا ہیں لوگ کہتے ہیں یہ اصلی خواجہ سرا نہیں نقلی ہیں۔ اب اصلی اور نقلی کے فرق کو کیا کرنا ہے انہوں نے۔ کیا خواجہ سرا ہونا کوئی مس ورلڈ کا خطاب حاصل کرنے کے برابر ہوتا ہے یا پھر پرائم منسٹر کا پرسنل اسسٹنٹ بنتا ہے وہ کچھ بھی نہیں ہوتا ہے لیکن بس لوگوں کے جملے دل کو مزید جلا دیتے ہیں۔

پولنگ والے دن کی مشکلات

سب سے پہلے تو ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ دوسرا یہ کہ اگر ہم پولنگ اسٹیشن پر پہنچ جاتے ہیں تو یہ ہمیں مردوں کی لائن میں کھڑا کر دیتے ہیں۔ جب تک ووٹ کاسٹ نہ ہو ان کی نگاہوں اور جملوں کا سامنا رہتا ہے۔ تمسخر اڑایا جاتا ہے۔

خواجہ سراؤں کی تعداد

کراچی کے علاوہ سندھ کی تمام ڈویژنز میں خواجہ سراؤں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی۔ 2017 کی مردم شماری میں صوبہ سندھ میں 5954 خواجہ سرا تھے جن کی تعداد 37 فیصد کمی سے 2023 کی مردم شماری میں 3745 رہ گئی ہے۔ کراچی کے علاوہ صوبے کی تمام ڈویژنز میں یہی صورت حال رہی۔

کراچی ڈویژن میں 1 فیصد اضافے سے خواجہ سراؤں کی تعداد 2247 تک پہنچ گئی جو 2017 میں 2223 تھی۔ لاڑکانہ ڈویژن میں 63 فیصد کمی سے 307 خواجہ سرا رہ گئے ہیں جن کی تعداد 2017 میں 849 تھی۔ حیدر آباد ڈویژن میں خواجہ سرا 1277 سے کم ہو کر 556 رہ گئے ہیں۔ ان کی تعداد میں 56 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ میر پور خاص ڈویژن میں 71 فیصد کمی سے 137 خواجہ سرا گنے گئے ہیں جن کی تعداد 2017 میں 537 تھی۔ شہید بینظیر آباد ڈویژن میں خواجہ سراؤں کی تعداد 635 سے کم ہو کر 239 رہ گئی ہے۔ ان کی تعداد میں 62 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ سکھر ڈویژن میں 40 فیصد کمی سے 433 خواجہ سرا رہ گئے ہیں جن کی تعداد 2017 کی مردم شماری میں 433 تھی۔

عظمیٰ یعقوب ایگزیکٹیو ڈائریکٹر فورم فار ڈگنٹی انیشیٹوز پاکستان کہتی ہیں کہ یہ خوف کمیونٹی کے اندر بیٹھا ہے نفرت کی جو ان کے خلاف کمپین چلائی گئی اس نے سب سے زیادہ جس چیز کو متاثر کیا وہ شناخت کو متاثر کیا ہے کہ یہ ٹرانس جینڈر ہے۔ یہ وہ پارٹ تھا۔ ججمنٹ آئی ہے۔ اب جو ہے مین اسٹریم پالیٹکس میں ان کی حصے داری کا یہ لوگ ہمارے سامنے کھڑے ہوں گے الیکشن لڑیں گے ان کو اپنی سیفٹی کے لالے پڑ گئے ہیں۔ یہ ریسٹور کیسے ہو گا۔ یہ بہت بڑا ڈیفسٹ آ گیا ہے۔ ٹرسٹ کا ڈیفسٹ آ گیا ہے آپ کی لائف کے تھریٹ ڈیفسٹ آ گیا ہے۔

یہ وقت تھا اصل میں جس میں سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے تھا۔ آپ اپنے جلسوں کے اندر ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے بارے میں بات کریں۔ آپ اپنے حلقوں کے اندر جو خواجہ سرا افراد شہری ہیں ان کو آپ موٹی ویٹ کریں۔ آپ موبلائز کریں کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور میں حلقوں میں جلسوں میں ان کے حقوق پر بات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آپ کی گنتی کی ہی تین چار پارٹیاں ہیں جو نیشنل لیول پر ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی ہے، پاکستان مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف پاکستان ہے اور جماعت اسلامی ہے۔ تین سے چار جلسوں کے اندر ٹرانس جینڈر رائٹس کو برابر افراد کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سے ٹرانس کمیونٹی انکرج ہو گی ان کا خوف ختم ہو گا انہیں اعتماد ملے گا۔ ابھی ایسا بھی نہیں ہے۔ 2024 کے الیکشن میں ٹرانس جینڈر بالکل بھی حصہ نہیں لے سکیں گے۔ اس میں شہزادی رائے جیسے لوگ حصہ لیں گے جن کو شعور ہے آگاہی ہے اور جن کو معلوم ہے مزاحمت کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ 2018 کا تجربہ نہیں ہو گا۔ کم ہو گا اس میں ہم نے ترقی نہیں کی میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے۔ سیاسی جماعتوں کا کردار ہونا چاہئیے تھا۔ سماجی تنظیموں کا ہاتھ ہونا چاہئیے۔

ادارہ شماریات پاکستان کے ڈائریکٹر منور علی گھانگھرو سے سندھ میں ٹرانس جینڈر کی آبادی کے لحاظ سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ اب تک ہم نے کوئی ڈیٹا کمپائل نہیں کیا ہے۔ پہلے وہ کمپائل ہوگا اس کا اپروول ملنے کے بعد ہم اسے اناؤنس یا پبلک کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ دوبارہ ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کے اندازے کے مطابق ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی کتنی آبادی ہو گی تو انہوں نے کہا کہ سب کے اپنے اندازے ہیں۔ اس پر حتمی طور پر جب تک ڈیٹا اناؤنس نہیں کیا جاتا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

وفاقی شرعی عدالت کا ٹرانس جینڈر ایکٹ پر فیصلہ

وفاقی شرعی عدالت میں خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف کیس کا قائم مقام چیف جسٹس محمد انور اور جسٹس خادم حسین نے محفوظ فیصلہ تھا۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے مطابق خواجہ سرا اپنی جنس تبدیل نہیں کر سکتے اور خواجہ سرا خود کو مرد یا عورت نہیں کہلوا سکتے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت ایسے افراد کو طبی، تعلیمی اور معاشی سہولیات فراہم کرنے کی پابند ہے۔ اسلام خواجہ سراؤں کو تمام انسانی حقوق فراہم کرتا ہے اور حکومت انہیں تمام حقوق دینے کی پابند ہے۔

فیصلے کے مطابق جنس کا تعلق انسان کی بائیولاجیکل سیکس سے ہوتا ہے۔ نماز، روزہ، حج سمیت کئی عبادات کا تعلق جنس سے ہے۔ جنس کا تعین انسان کی احساسات کی وجہ سے نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام میں خواجہ سراؤں کا تصور اور اس حوالے سے احکامات موجود ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کی سیکشن 2 این شریعت کیخلاف نہیں، خواجہ سرا تمام بنیادی حقوق کے مستحق ہیں جو آئین میں درج ہیں، خواجہ سراؤں کی جنس کی تعین جسمانی اثرات پر غالب ہونے پر کیا جائے گا۔ جس پر مرد کے اثرات غالب ہیں وہ مرد خواجہ سرا تصور ہوگا اور جس پر عورت کے اثرات غالب ہوں گے وہ خاتون خواجہ سرا تصور ہوگا۔

وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ شریعت کسی کو نامرد ہو کر جنس تبدیلی کی اجازت نہیں دیتی، جنس وہی رہ سکتی ہے جو پیدائش کے وقت تھی۔ وفاقی شرعی عدالت کا کہنا ہے کہ جسمانی خدوخال کے مطابق کسی کو مرد یا عورت نہیں کہا جا سکتا، جسمانی خدوخال اور خود ساختہ شناخت پر کسی کو ٹرانس جینڈر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سیکشن7 میں مرضی سے جنس کا تعین کر کے وراثت میں مرضی کا حصہ لیا جا سکتا تھا، وراثت میں حصہ جنس کے مطابق ہی مل سکتا ہے، مرد یا عورت خود کو بائیو لاجیکل جنس سے ہٹ کر خواجہ سرا کہے تو یہ غیر شرعی ہوگا۔ شریعت کورٹ نے ٹرانسجینڈر ایکٹ کی سیکشن ایف ٹو بھی خلاف شریعت قرار دے دی۔ عدالت نے ٹرانسجینڈر ایکٹ کے تحت بننے والے رولز بھی غیر شرعی قرار دے دیے۔ کہا گیا کہ غیرشرعی قرار دی گئی دفعات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

عظمیٰ یعقوب ایگزیکٹو ڈائریکٹر فورم فار ڈگنٹی انیشیٹوز پاکستان کہتی ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان یا آپ کا الیکشن کا عملہ آپ کا میڈیا یہ جان بوجھ کر یہ تاثر نہیں دیتے کہ جب بھی آپ الیکشن کمیشن کے پاس بیٹھے وہ رونا روئیں گے کہ ہمارے پاس ریسورس نہیں ہے۔ فنانس کے حوالے سے بھی ہیومن ریسورس کے حوالے سے بھی وہ کہتے ہیں ہمارے پاس لوگ نہیں ہیں۔ جب سے 8 فروری کو الیکشن کا اعلان کیا گیا ہے اسکول کی عمارتیں کم ہے ہمارے پاس عملہ کم ہے۔ اسکول نہیں تو ہم کہاں پر ووٹنگ کرائیں گے۔ ہمارے پاس کیا کیمونٹی سیںٹرز نہیں ہیں۔ آپ کے پاس صلاحیت نہیں ہے۔ اس میں جو آپ کا پرائم ٹائم میڈیا ہے اس کا اہم کردار ہے۔ بجائے اس کے پرائم ٹائم میں وہی لڑائی جھگڑے اور دیگر چیزیں دکھائے۔ کس نے موٹروے بنا دی کس نے آئی ایم ایف کو انکار کیا کس نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام دیا ان چیزوں سے نکل کر ہم اگر اصل ایشوز پر آئیں سوسائٹی میں اہم ایشوز کو اجاگر کریں تو اس سے بہت بڑا فرق پڑنا ہے۔ ان کو ٹرسٹ پر ووٹ ملے گا۔ آپ کے ٹی وی چینل کا ایک گھنٹہ ٹرانس جینڈر کو پروگرام میں بٹھا دے۔

دوسری اہم چیز ہے یوتھ کا کردار۔ یوتھ کو بزی کرنے کے مختلف طریقہ کرے اسکولوں میں کالجوں یونیورسٹیز میں ہمارے پاس کیا مسائل ہیں ٹرانس جینڈر کو اصل میں کن مسائل کا سامنا ہے ان کو سمجھایا جا سکیں وہاں پر بھی جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ پہلے سیاسی جماعتوں کا کردار ادا ہونا چاہیے وہ ہر فورم پر بات کریں۔ ووٹرز کو موبالائز کریں، ٹرانس جینڈر کی زندگی کو کس انداز میں بدلیں گے۔ کیا تبدیلی آئے کتنوں کو اسکالرشپ دیں گے اور جاب کوٹہ کتنا ہوگا۔ تمام چیزیوں میں ان کو شامل کرنا ہوگا۔

سندھ میں جاری ساتویں مردم شماری کے مطابق سب سے زیادہ خواجہ سرا کراچی ڈویژن میں مقیم ہیں جبکہ شہر قائد کے 7 اضلاع میں سے کورنگی میں سب سے خواجہ سرا رہتے ہیں۔

خواجہ سراؤں کی تعداد کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے کے 3365 خواجہ سراؤں میں سے 1950 کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔ کورنگی میں 497، ضلع وسطی میں 383، شرقی میں 274، جنوبی میں 250، غربی میں 170، ملیر میں 161 اور کیماڑی میں 215 خواجہ سرا شمار کیے گئے۔ انتخابات کی نسبت رجسٹرڈ خواجہ سرا پرسنز ووٹرز کی تعداد میں 116 کا اضافہ ہواہے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر جینڈر شبیر خان نے کہا کہ خواجہ سراؤں کو نہ صرف بطور ووٹر رجسٹرڈ کیا گیا بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ پولنگ ڈے پر باعزت طریقے سے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔

صبا گل چیئرمین انڈس ویلفیئر ایسوسی ایشن اور ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی سماجی کارکن ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب میں نے دیکھاکہ یہ لوگ بھیک مانگ رہے ہیں اور باقی لوگ انہیں پتھر ٹماٹر مار رہے ہیں اور یہ لوگ بری حرکات میں ملوث ہیں تو اس کے بعد میں نے ان کے اوپر کام کرنا شروع کر دیا۔ میری کوشش ہے خواجہ سرا کیمونٹی کے جو لوگ بھیک مانگتے ہیں اس کا خاتمہ کروں اور انہیں باوقار زندگی کی طرف راغب کروں۔

جینڈر انٹرایکٹیو الائنس پاکستان کے مطابق کراچی کے 80 فی صد خواجہ سرا ناخواندہ ہیں جبکہ باقی 20 فی صد کی اکثریت بھی کم پڑھی لکھی ہے۔

بندیا رانا کا کہنا ہے کہ اگر حکومت 80 فی صد خواجہ سرا کو جاب نہیں دے سکتی تو انہیں کم از کم 20 فی صد پڑھے لکھے خواجہ سراؤں کو روزگار دینا چاہئیے۔

رمشا کہتی ہیں کہ دو پرسنٹ کا کوٹہ کافی ہے خواجہ سرائوں کو اگر روزگار ملے تو وہ رستوں پر سگنلز پر کہیں پر بھی بھیک مانگنے اور ڈانس کرتے کوئی نظر نہیں آئے گا۔

ڈائریکٹر الیکشن کمیشن بابر ملک کے مطابق الیکشن کمیشن ووٹرز کی جنس سے متعلق ڈیٹا نادرا سے حاصل کرتا ہے۔ خواجہ سرا ووٹرز کے اندراج کے لیے فارم 21 الگ خانہ بنایا گیا ہے۔

آئندہ عام انتخابات میں خواجہ سراؤں کے رجسٹرڈ ووٹرز دستاویزات کے مطابق ملک بھر سے 3 ہزار 29 خواجہ سرا پرسن ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے۔

نادرا حکام سے جب بھی رابطے کی کوشش کی گئی اور ان سے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے تحفظات اور شناختی کارڈ نہ بننے سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے اس موضوع پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔